میں تو کوئی خیال ہاں
محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
وہ ایک پیغام تھا جو پرین ء جو پاڑو جسے دیس میں 17جنو ری کو طلوع ہوا، دیس کو روشن کیا مسیح کی مانند بہت کم اس کے رفقاء بنے، بہت زیا دہ ناصح بنے جو رفقاء بنے ان رفقاؤں نے بھی اس کا دل بار بار توڑا اسے دھوکہ دیا اسے ستایا اور وہ پرین ء جے پار جیسا معصوم انسان جام شورو کے پہاڑوں میں ڈھلتے سورج کے ساتھ ڈھل گیا۔
سندھ آج تک اس کی آمد پر ایسے الفاظ تلاش رہا ہے جیسے الفاظ ان مسیحاؤں کی آمد پر ادا کیے جاتے ہیں جو مسیح نجات دھندہ ہو تے ہیں۔جو اپنا سب کچھ لُٹا کر اس قوم کی کشتی کو پار لگاتے ہیں جس قوم میں انہیں بھیجا جاتا ہے۔آج اسے سندھ میں آئے ایک سو بیس سال بِیت گئے اور اسے جا تے تیس سال ہونے کو ہیں پر پھر بھی سندھ کے اداس لبوں کو ایسے الفاظ ہی نہیں ملے جن الفاظ سے سندھ اسے خوش آمدید کہتا اور ایسے الفاظ جن الفاظ سے سندھ اسے وداع کرتا۔
سندھ اس کے آنے اور جانے کے شایانے شان الفاظ تو آج بھی تلاشتا پھر رہا ہے۔
کبھی لطیف کے سروں میں!
کبھی بخاری کے سرائیکی لہجے میں!
کبھی ایاز کے مست کلام میں!
کبھی بھبنھور کے میدانوں میں
کبھی سندھو کے پانی میں!
کبھی موکھی کے مہ میں!
کبھی کُپر کے کُن میں!
کبھی ماٹی کی مہی میں!
کبھی اک تا رے کی لے میں!
کبھی کارونجھر کی کور میں!
کبھی موروں کی صداؤں میں!
کبھی صحرا کی ہواؤں میں!
کبھی چیکلو کی چیکاٹ میں!
کبھی ببر کے بوڑھے درختوں میں!
کبھی لاڑ کی نمکین ہواؤں میں!
کبھی کاچھو کے پہاڑوں میں!
جب تک سندھ اس کے آنے کے الفاظ چن لے اور پورے سندھ کو بتائے کہ جو شخص آج سے ایک سو بیس سال پہلے اپنی ماں کی گود میں موجود رہ کر کبھی ماں کے درشن کرتا کبھی ماں جیسی سندھ کے! وہ کون تھا؟ جب تک ہم اس کے سندھ سے جانے کے الفاظ چنتے ہیں۔وہ ایک انسان بھی تھا۔ وہ ایک پیغام بھی تھا۔ وہ سندھ کے مارو ؤں کے لیے ایک ایسا ہی پیغام تھا جیسا پیغام وہ نبی لاتے ہیں۔ وہ سماج سدھارک لاتے ہیں۔ وہ گوتم لاتے ہیں۔ وہ پیامبر لاتے ہیں۔ اور پورا سماج ان کا دشمن بن جاتا ہے۔اس کے پاس بھی ایک سچ کا پیغام تھا اسی لیے وہ منصور ٹہرا اور سولی سزا وار بنا۔
آئیے ہم اس کے سندھ سے جانے کے الفاظ چنتے ہیں، جس کے جانے سے سندھ پر اک صدمہ طاری ہے اور آج کئی سال گزرنے کے باجود سندھ پر کئی اداس شامیں ڈھلنے اور کئی اندھیری صبحیں طلوع ہونے کے باجود کئی اذیت بھری بارشوں کے برسنے کے باجود کئی کالی چاندنی چڑھنے کے باجود بھی سندھ اس صدمے سے باہر نہیں نکل سکااگر ہم بہت ہی کوشش کریں تو کیا شیسکپئر کے ڈرامے،،جولیس سیرز،،میں انٹونی نے جو الفاظ بروٹس کے لیے ادا کیے تھے ہوسکتا ہے کہ ان الفاظ سے کچھ ایسا ہوجائے کہ سندھ کے زخمی دل کو وہ قرار مل جائے جس قرار کو تلاشنے کے لیے سندھ نے بہت طویل سفر کیا ہے پر اس کی جھولی میں سوائے مسخ شدہ لاشوں کے کچھ نہیں پڑا
،،جولیس سیرز،،میں جب بروٹس نہ رہا تو انٹونی نے جو کہا وہ تاریخ کا ایک حصہ بن گیا ہے جو آج بھی تاریخ کے کانوں میں گونج رہا ہے ان ہی الفاظوں سے ہم اپنے پیمبر کو سندھ سے وداع کرتے ہیں کہ
،،اس کی زندگی ایک شریف زندگی تھی۔اور اس میں عناصر کی ترکیب اس خوبی کے ساتھ کی گئی تھی کہ فطرت ساری دنیا کے سامنے یہ اعلان کر سکتی تھی کہ وہ انسان تھا،
انسان بھی
انسان شناس بھی
انسانوں سے محبت کرنے والا بھی
اور انسان دوست بھی!،،
پر شاید یہ وہ ایسے الفاظ نہیں کہ جس سے ہم اسے سندھ سے وداع کریں ہوسکتا ہے کہ یہ ایسے الفاظ ہوں کہ جن سے سندھ کا درد کچھ کم ہوجائے یہ الفاظ درد کُش دوا جیسے تو ضرور ہیں پر یہ ایسے الفاظ نہیں جن الفاظوں سے درد یا تو تھم جائے یا سوا ہو جائے۔
یہ الفاظ تو درد کو گونگا کردینے جیسے ہیں۔سندھ کے پاس کچھ نہیں سوائے درد کے اور جب درد کو ہی گونگا کر دیا جائے تو پھر ہم کس کو اور کیسے بتاپائیں گے کہ جو آج سے کئی سال پہلے سندھ میں آیا اور تیس سال پہلے ڈھلتے سورجوں کے ساتھ ڈھل گیا وہ کیا تھا؟وہ کون تھا؟ہم یہ اُمید اس جلال محمود شاہ سے کیسے کر سکتے ہیں کہ وہ سندھ کو اور باقی ماندہ دنیا کو بتائے کہ جو اپنے کاپنتے ہاتھوں سے اپنے سیاسی ورکروں کو رات کے آخری پہروں میں ان کی چادریں درست کیا کرتا تھا۔جو اپنی بوڑھی آنکھوں میں آزاد انسانیت اور آزاد دیش کے خواب سجایا کرتا تھا۔جو اپنے کانپتے ہاتھوں سے لطیف کے رسالے کو پڑھ کر اپنی ضعیف آنکھوں سے موتیوں جیسے آنسو صاف کیا کرتا تھا۔جس کے دل میں دولت کی حوس نہیں پر پیار کا دریا بہتا تھا۔جو ڈھلتی عمر میں بھی معصوم انسان تھا۔جس نے بس بہت سے کتابیں نہیں پڑھیں۔جس نے انسان پڑھے،جس نے محبتیں پڑھیں۔جس نے،،جیسا میں نے دیکھا،،اور،،دیارِ دل داستانِ محبت،،جیسی شہکار کتابیں ہی نہیں لکھیں پر جس نے کتابوں جیسے خواب بھی دیکھے۔
وہ خواب جو سونے نہ دیں!
وہ خواب جو رونے نہ دیں!
دھرتی کے خواب!دھرتی کی مٹی کے خواب!محبت کے خواب!محبت میں ملن کے خواب!سندھ ماں کے خواب!
تو سندھ کوSUPکا سربراہ جلال محمود شاہ کیسے بتا پائے گا کہ وہ انسان جسے پو رے عالمِ انسانیت کی فکر تھی،جس کے خواب میں یہ شامل تھا کہ
،،مائیں!محبوبائیں!دھرتی!معصوم بچے اور محبت آزاد ہو!،،
کہ وہ بوڑھا انسان کیسا انسان تھا جس کی بوڑھی آنکھوں میں بھی خوابوں کا جنم ہوتا تھا۔
جو روز اک نئے خواب کو جنم دیتا تھا
جو خوابوں کی اماں حوا جیسا تھا
کبھی محبت کا خواب
کبھی محبت میں دیش کو جِلا بخشنے کا خواب
توسندھ کو جلال محمود شاہ زین شاہ کیسے بتاپائینگے کہ وہ کیسا تھا؟
جو کراچی میں سید کی روح اور آشیانے کو ہی بیچ کھا گئے
اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ سن میں موجود کتاب جیسی قبر کا سودہ کب کرتے ہیں؟!!!
اب تو سندھی قوم پرست قبروں کے بیوپا ری ہی بن کر رہ گئے ہیں
قمر سوبھ بھٹی سے لیکر ایاز پلیجو تک
صنعان قریشی سے لیکر جلال محمود شاہ تک!
پر اگر یہی سوال سندھ سے پوچھا جائے کہ وہ جو 17جنوری کو سن کے ڈھلتے سور ج کے ساتھ پہاڑوں کے پیچھے ڈھل گیا وہ کون تھا؟
تو سندھ اپنی بھیگی پلکیں اُٹھا کر سچل کی بولی میں جواب دیگا کہ
،،میں تے کوئی خیال ہاں
ملساں نال خیال دے!،،
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں