لاپتہ طلباء کے معاملے میں یونیورسٹی انتظامیہ روایتی طفل تسلی کی روش پر کاربند ہے – بی ایس او پچار

222

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پجار کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک بیان میں یونیورسٹی انتظامیہ اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے غیر سنجیدہ طرز عمل کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ لاپتہ طلباء کے معاملے میں مذکورہ عناصر روایتی طفل تسلی اور ٹرخانے کی روش پر کاربند رہ کر طلباء میں موجود اضطراب کو ہوا دے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ باشعور بلوچ طلباء پر روز اول سے یہ بات عیاں ہوچکی ہے کہ یہ لوگ جمہوری احتجاج کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور وعدہ خلافی انکی سرشت میں شامل ہے۔تاہم پُرامن اور جمہوری جدوجہد کے روادار ہونے کے باعث ہم انکو ہرممکن موقع فراہم کرتے رہے ہیں کہ شاید کبھی نہ کبھی وہ اپنے ضمیر کی دستک سن لینگے لیکن لگتا ہے کہ ہرقسم کی اخلاقی روایات کی دھجیاں بکھیرنا وہ اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔

ترجمان نے گوادر دھرنے کے نتیجے میں حکمرانوں کی طرف سے کئے گئے وعدے وعیدوں اور ریکوڈک معاملے کے معاہدات کو سردخانے کی نظر کرنے پر انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوامی احتجاج کے آگے شکست خوردہ حکمران خوشنما وعدوں کو صرف ایک سیاسی پینترابازی کے طور پر استعمال کرتے ہیں جسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

مزید براں ترجمان نے طلباء الائنس میں شامل ایک دھڑے کے کچھ کارکنوں کے منفی کردار کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ہے کہ ان دوستوں نے الائنس کے لازوال جدوجہد کے خلاف سلطانی گواہ والی پوزیشن اپناکر ہزاروں مخلص طلباء کی دل شکنی کی ہے۔ایک بلوچ طالبعلم کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کے چکر میں طلباء مخالف قوتوں کے دربارمیں سجدہ ریز ہوکر طلباء الائنس کے خلاف استعمال ہو۔اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ متعلقہ طلباء دھڑے کے ذمے داران نے اس معاملے میں مکمل چپ سادھ لی ہے۔ہم مذکورہ طلباء تنظیم کی قیادت سے یہ مطالبہ کرنے کا حق محفوظ رکھتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں اپنی پوزیشن واضح کرے تاکہ اتحاد میں دراڑ پیدا ہونے کا خدشہ ختم ہو۔