وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء سمی دین بلوچ نے کہا ہے کہ لاپتہ افراد کے لواحقین علاقائی معتبرین کے سہارے بیٹھ کر اپنے کیسز قانونی طریقے سے جمع نہیں کراتے ہیں جس کے باعث قانونی حوالے سے کیسز میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
بلوچستان سے لاپتہ افراد کے لئے آواز اٹھانے والی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے جنرل سیکٹری سمی دین بلوچ نے کہا ہے لاپتہ افراد کے لواحقین علاقائی میر و معتبروں کے سہارے اپنے پیاروں کی زندگیاں مزید خطرے میں نہ ڈالیں آپکی خاموشی مسخ شدہ لاشوں کی صورت سامنے آئے گی ۔
سمی دین محمد نے کہا ہم ایک بار پھر لاپتہ افراد کے لواحقین سے درخواست کرتے ہیں کہ لواحقین اپنے لاپتہ پیاروں کے کوائف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کو جمع کرائیں –
سمی بلوچ نے مزید کہا لواحقین کی جانب سے کیس جمع کرانے اور تنظیم کو تفصیلات کی فراہمی کے بعد وی بی ایم پی لاپتہ افراد کے کیس قانونی طور پر لڑے گی-
وی بی ایم پی رہنما کا بیان برطانوی نشریاتی ادارے کے اس رپورٹ کے تناظر میں سامنے آیا ہے جہاں پہلے ایک شخص کی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی اور بعدازاں اس کی لاش پھینکی گئی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے حاجی ناصر نے دعویٰ کیا یکم جولائی 2019 کی رات جب وہ اپنے گھر کے صحن میں سوئے ہوئے تھے تو اچانک گھر کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ’میں نے دروازہ کھولا تو وردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس سکیورٹی فورسز کے اہلکار باہر کھڑے تھے۔
حاجی ناصر نے الزام عائد کیا کہ اُن کا بیٹا تربت میں زیر حراست تھا مگر بعدازاں اس کی میت کو مشرقی بلوچستان سے بلوچستان مغربی (ایرانی) علاقے میں پھنیک دیا گیا۔
حاجی ناصر کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے اس واقعے کے بعد بیٹے کی ماورائے آئین و قانون گرفتاری کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کروائی۔ اس کی وہ دو وجوہات بیان کرتے ہیں۔ پہلی یہ خوف کہ کہیں اُن کے بیٹے کو مبینہ دوران حراست نقصان نہ پہنچایا جائے اور دوسری سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے دی جانے والی یہ یقین دہانی کہ تفتیش کے بعد اسد کو چھوڑ دیا جائے گا۔
حاجی ناصر کے مطابق وہ کیچ سے تعلق رکھنے والے صوبائی اور وفاقی وزرا سے ملے اور اپنے بیٹے کی بازیابی کی درخواست کی۔ ’اُن سب نے مجھے تسلی دی کہ میرا بیٹا بازیاب ہو جائے گا۔‘
کیچ کے ڈپٹی کمشنر حسین جان بلوچ نے بی بی سی کو بتایا کہ اسد ناصر سمیت دونوں افراد کی ہلاکت کیچ میں نہیں بلکہ ایران میں ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ ان افراد کی لاشیں ایرانی حکام نے پاکستان کے حوالے کیں جس کی باقاعدہ ڈاکومینٹیشن بھی کی گئی۔ ’یہ بات واضح ہے کہ یہ لوگ کیچ میں نہیں مارے گئے بلکہ ایران میں ہلاک ہوئے۔‘
سمی دین بلوچ نے ڈپٹی کمشنر کیچ کے اس بیان پر ردعمل دیتے ہوئے لواحقین سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے لاپتہ پیاروں کے حوالے سے ایف آئی آر درج کرے تاکہ قانونی حوالے سے لاپتہ افراد کے کیسز کو عدالتوں میں پیش کیا جاسکے۔
خیال رہے ماضی میں بھی حکومتی وزراء اور دیگر حکام دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ لاپتہ افراد باہر ممالک مقیم ہیں تاہم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز اور لاپتہ افراد کے لواحقین ان الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔