بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے اپنے ایک بیان میں سردار عبدالرحمٰن کھیتران کے نجی قیدخانے میں اورقیدخانوں میں بلوچ خواتین اوربچوں کی قید، جنسی زیادتی ،تشدد انتہائی شرمناک اور قابل مذمت عمل ہے۔
مرکزی ترجمان نے کہا کہ اس صدی اور جدید انسانی ترقی کے دور میں لوگوں کونجی جیلوں میں رکھنااوران کے ساتھ زرخرید غلاموں جیسا سلوک قرون وسطی ٰکی یاد دلاتا ہے۔
ایسے کریہہ اورسیاہ کرتوت بلوچ سماج پردرآمدی اورپاکستانی پاکستانی قبضہ کے بلوچستان پر بھیانک اثرات ہیں،بلوچ سماج میں ایسی سوچ بھی انتہائی معیوب اورقابل نفرت سمجھی جاتی ہے لیکن بلوچ لبادہ اوڑھے پاکستانی گماشتے ایسے اعمال کرتے نظرآتے ہیں اورثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی رنگ میں مکمل ڈھل چکے ہیں اوربلوچ تہذیب وثقافت اورروایات واقدارسے اب ان کادورکارشتہ بھی باقی نہ رہا۔
انہوں نے کہاکہ خان محمد ولد نبی بخش گزینی مری سکنہ کاہان کوہلو کے خاندان پرسرداراورپاکستان نے بیک وقت وارکیاہے اوردونوں کی نفسیات، درندگی اورحیوانیت میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ایک پورے خاندان کوبلوچیت اورانسانیت سے عاری سرداراپنی نجی جیل خانے میں قیدکرتاہے اوربلوچ بیٹیوں کی عزت سے کھیلتے ہے اوربلوچیت کے دعوے دارباقی پاکستانی سردارچھپ سادھ لیتے ہیں کیونکہ سردارکاتعلق “باپ “سے ہے اوریہ باپ حقیقی معنوں میں بہت سوں کاباپ بن چکاہے اوراسے ناراض کرنے پران کی نوکریاں چلی جاتی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ خان محمد مری کا آڈیو پیغام عبدالرحمٰن اس کی باپ پارٹی اور اس جیسے لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو عبدالرحمٰن کھیتران کے ساتھ پاکستانی اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں۔ خان محمد مری کےبھائی کی جبری گمشدگی اور بعد میں اس کے پوری خاندان کو چھوٹے بیٹے اور بیٹیوں سمیت حبس بے جا میں رکھنا ،ان پرتشددایک شخص کافعل نہیں بلکہ ریاست پاکستان کی جانب سے بلوچ قوم پر جاری اجتماعی سزا کا تسلسل ہے۔ جس طرح جبری لاپتہ بلوچوں کو خفیہ زندانوں میں ڈال کر انہیں بستروں، دھوپ، خوراک اور دوسری ضروریات زندگی سے محروم رکھا جاتا ہے، اسی طرح عبدالرحمٰن کو یہی سبق پڑھایا گیا ہے۔ اس کام کیلئے اسے مقامی انتظامیہ اور پاکستانی ریاست کی آشیر باد حاصل ہے اور ان جیسوں کوبلوچ قتل عام کے ساتھ ساتھ بلوچ روایات کوپاؤں تلے روندے کی عوض کٹھ پتلی بنایاجاتاہے ۔
ترجمان نے کہا کہ خان محمد مری کے خاندان کے ساتھ زیادتی بلوچوں کو ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے ہے۔ گوکہ یہ بلوچستان میں پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس طرح واقعات مشکے، گچک، جھاؤ، گریشہ سمیت کئی علاقوں میں براہ راست فوجی فوج یا اس کے گماشتوں نے خواتین کو قید میں کرکے خاندان کے دوسرے افراد کو دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ گوکہ سردار عبدالرحمن کی جانب سے یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے لیکن کسی پاکستانی اسمبلی نشین کو جرات نہیں ہوا ہے کہ اس کی سفاکیت کو دنیا کے سامنے لائے۔