صوفیزم: ایک منفرد فلسفہ ۔ شِن بلوچ

382

صوفیزم: ایک منفرد فلسفہ

تحریر: شِن بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تقریباً ہزار سال پہلے مغربی ایران میں علی بن احمد نام کا ایک آدمی جو بشانج میں رہتا تھا, اور جو ایک استاد تھا,  اس نے ایک نئے فلسفے کی بنیاد رکھی۔ جسے ہم صوفیزم یا صوفی فلسفے کے نام سے جانتے ہیں۔ اس وقت تک اسلامی تہذیب اور قوانین وہاں “رائج” تھے۔ اس لیے علی بن احمد  اپنے خیالات سامنے لانے سے ڈررہا تھا۔

موجودہ دور کی طرح اس وقت بھی نئے خیالات و تصورات پر پابندی, کفر کے فتوے اور سزائے موت دی  جاتی تھی۔ لہذا علی بن آحمد نے اسے حدیث “حسن” قرار دیا لیکن مسلمانوں نے اسے کبھی قبول نہیں کیا۔صوفیوں پر حملے ہوئے۔ دھمکی دی گئی اور کئیوں کو تو مار دیا گیا۔

اگر ہم لفظ صوفی پر غور کریں تو اس کے بہت سے مطلب نکلتے ہیں جیسے علم سے معمور،  پرہیزگار، دین کا ماہر یا جاننے والا وغیرہ، اور صوفی صوفیزم کے پیروکار  کو بھی کہتے ہیں۔

صوفی فلسفے کے بارے میں بشانجی نے کہا ہے۔  “یہ ایک نام ہے بغیر حقیقت کے لیکن یہ استعمال ہوتا ہے بطور ایک حقیقت بغیر نام کے۔”

صوفیزم ایک فلسفہ ہے جو واحدت الوجود کا ذکر کرتا ہے مطلب کہ خدا اور کائنات ایک ہیں، اور  بقول ان کے, انسان  زبان سے آواز, ہاتھوں کی حرکت اور دل سے یقین, یعنی صوفیانہ رقص اور موسیقی کے زریعے خدا سے ملاقات کرسکتا ہے, ہم کلام ہوسکتا ہے اور رابطہ کرسکتا ہے۔ اس کی بڑائی اور شان کو جان سکتا ہے۔

صوفی دل کو زندگی کا مرکز, شعور اور ذہانت مانتے ہیں۔
جیسے کہ صوفی جلاالدین رومیؔ کہتا ہے
‏” you are your thoughts,
‏the rest of you is bone and fiber.”
صوفی فلسفے کی بنیاد اسلامی خیالات و مواد پر مبنی ہے جیسے کہ پہلا شہادۃ ‘کوئی خدا نہیں ہے لیکن خدا’۔
کچھ نہیں تھا لیکن خدا تھا صرف خدا کا ہی وجود ہے، باقی کچھ نہیں صرف خدا ہے۔
یہ وہ فلسفہ ہے جو سانئس اور فلسفے کے سب سے بڑے سوال کا جواب دے سکتاہے یعنی
‏How can something comes from nothing.
سانئس کے ایک نظریے  کے مطابق خلا خالی نہیں ہے بلکہ اس میں زرات موجود ہیں جنہیں Virtuals کہا جاتاہے۔ وہ Nothing یعنی نیست یا عدم سے اکر ایک دوسرے کو ختم کرکے واپس Nothing میں چلے جاتے ہیں۔
اور صوفیزم اس حوالے سے کہتا ہے کہ کائنات یا کہ خالق ہمیشہ تھا نہ شروع نہ ختم ہوگا۔

جیسے کہ پروفیسر نے کہا ہے کہ ہم اُن چیزوں سے بنے ہیں جس سے ہماری کائنات خود بنی ہے۔ جب ہم کائنات کا مشاہدہ کرتے ہیں تو دراصل ہم اپنے آپ کا مشاہدہ کررہے ہیں. پس  ایسی قوت ضرور ہوگی جو ہمیں ایک دوسرے سے ملا دےگی. اور یہ صرف فورس کے بارے میں ہے۔

اسے سائنسی حساب سے دیکھیں تو ہم کبھی اکیلے نہیں تھے ہمارا خالق ہمشہ ہمارے ساتھ تھا اور ہے اور نہ جانے رہے گا بھی نہیں!
صوفی فلسفہ ہو یا پروفیسر کا کہنا دونوں یہی بیان کررہے ہیں کہ خدا ہی حقیقت، ہستی اور کائنات ہے. ہم اُس سے بنے ہیں اُس کے حصے ہیں ہم کبھی بھی اس سے جدا نہیں تھے ہم ہمیشہ اُس میں اور وہ ہم میں ہیں. اس وقت ہم خالق کو دیکھ رہے ہیں نہ کہ اپنے آپ کو. ہم ہی خالق ہیں اور خالق ہم ہیں اور صوفی فلسفہ کے ذریعے ہم خدا کے پیار، بڑھائی اور شان کو اپنے آپ سے ملا کر ہی سمجھ سکتے ہیں۔

اگر ہم دوسرے فلسفیوں  کی نگاہ سے دیکھیں تو وہ کہتے ہیں کہ خدا نے کائنات کو بنایا۔ اگر اس طرح ہے تو خدا کو کس نے بنایا؟
صوفیزم اپنے آپ میں  ایک منفرد فلسفہ ہے جیسے کہ زِن, ودھانتہ وغیرہ۔

کیا صوفئزم کو اسلام سے الگ ہونا چایئے؟ کیونکہ اِن دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت نہیں۔ اسلام اور صوفیزم میں کافی تضادات ہیں۔ جیسا کہ اسلام اور صوفی فلسفہ میں خدا کے بارے میں مختلف نظریات۔ اسلام کہتا ہے کہ خدا نے کائنات کو بنایا اور صوفیزم واحدت الوجود کی بات کرتا ہے یعنی خدا کائنات ہے اور کائنات خدا۔
اسلام میں رقص اور موسیقی کی سخت ممانعت ہے لیکن یہ دونوں صوفیزم کے اہم حصے ہیں۔

اسلام اور صوفیزم میں بڑا فرق ہے۔ مسلمان اور مشرقی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اسلامی فلسفہ نہیں ہے اور نہ ہی اِسے ہونا چائیے۔ لیکن اب صوفیزم اتنا وسیع ہوچکا ہے کہ اِسے اسلام سے نکالا جاسکتاہے لیکن اِس کی بنیاد اسلام پر قائم ہے۔

صوفی کہتے ہیں کہ “دکھاۓ ہمیں چیزیں جو حقیقت میں جیسے ہیں ایک جو نہیں دیکھ سکتا کھلی آنکھوں سے، دماغ سے اور نہ دل کی گہرائی سے۔
اب میں فیصلہ آپ اور صوفیوں پر چھوڈتا ہوں کہ صوفیزم کو اسلام سے علیحدہ ہونا چائیے یا نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں