ساحل کو پہچانتے ہوئے – شے حق صالح

488

ساحل کو پہچانتے ہوئے

تحریر: شےحق صالح بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ گذشتہ مہینے کی بات ہے جب ہم بی آر سی ( بلوچستان ریزیڈینشل کالج تربت ) کی طرف سے گوادر ٹوُر پر جارہے تھے اور “حق دو تحریک” ابتدئی مرحلے میں تھا۔ گوادر کو دیکھنے کے لۓ ہمارے بہت سے دوست پرجوُش تھے کیونکہ آج تک انہوں نے صرف تصویروں اور یوٹیوب ( Videos) میں گوادر کو دیکھا تھا۔

کوئٹہ اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا مہریں ڈرائیو روڈ ( Marine Drive Road ) کو دیکھنے کے لئے بہت بے چین تھے اور ان کی انتظار قابل دید تھی۔ کیونکہ کوئٹہ والوں نے صرف وزیر اعلیٰ بلوچستان اور دوسرے وزراء کے ٹیوٹر (Twitter Account) پر لگے ہوۓ تصویراور اور یوٹیوبز دیکھ کر حیران رہ گۓ تھے اور گوادر کو دبئی اور سنگاپور سمجھنے لگے تھے۔

اسی دوران مجھے ایک کالم یاد آیا جو میں نے ماضی میں پڑھا تھا جس کا عنوان ” تصویر کا دوسرا رخ ” تھا۔ اسی طرح شاید میرے ان دوستوں کو تصویر کے دوسرے رخ کا پتہ نہیں تھا۔

لیکن گوادر کے آغاز ہی سے میرے دوستوں کو گوادر کا دوسرا رخ کا پتہ چلا جب ان کو معلوم ہوا کہ حق دو تحریک کا احتجاجی دھرنا چل رہا ہے اور 4G سروس نیٹورک بند ہے۔

نجی کمپنیوں کے نیٹورک اس وقت بند ہوتے ہیں جب لوگ اپنے حق اور حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔

مایوس چہروں کے ساتھ ہم گوادر پہنچے اور گوادر کے مرکز میں واقع اپنے آخری فاونٹ نیاآباد پہنچے جو کہ نیاآباد سے زیادہ مایوس آباد لگ رہا تھا۔
نیاآباد میں اونچے بنگالیوں کے درمیان غریبوں کے جھونپڑیاں بھی تھے۔ ان کی حالاتِ زندگی کو دیکھ کر بس ہم افسوس ہی کر سکتے ہیں۔

میں پہلے بھی گوادر اور دوسرے ساحلی شہروں میں گھومتا رہا ہوں لیکن مجھے اس عظیم سرزمین کے وسائل کے بارے میں اتنا پتہ نہیں تھا۔ بچپن سے سنتاآرہا ہوں کہ “گوادر کو پانی دو ” ، “تعلیمی ادارے دو” اور مختصراً ہمارا حق دو۔

ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب ( سفرنامہ ) ” سورج کا شہر ؛ گوادر ” پڑھنے کے بعد میں نے بھی گوادر اور اپنی ساحل کو قریب سے دیکھنا شروع کر دیا۔

ڈاکٹر نے اپنی کتاب ان بلوچ ماہی گیروں کے نام کیا تھا جن کے کشتیاں اور جال ٹرالروں کے سامنے ہیچ تھے اور جن کی کوئی ٹریڈ یونین نہیں۔

2004 میں اشاعت ہونے والی کتاب میں جاپانی اور کویائی ٹرالروں کا ذکر ہے اور آج کسی اور طاقت کی صورت میں یہ ظالم ٹرالر بلوچ ماہی گیروں پر قابض ہے۔

جس شہر میں وزیر اعظم تقریر کرتے ہوئے ناراض بلوچوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بات چیت کی بات کرتے ہیں۔آج یہی شہر میدان جنگ بن چکا ہے اور میدان جنگ میں سپاہی صرف اپنے حق اور حقوق کی بات کر رہے ہیں ۔

گوادر جس پر بیرونی قوتیں قابض ہیں یا اپنے ہیں لیکن اس حال میں ان کو دیکھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ وہاں موجود لوگوں کو کچھ اہمیت ہی نہیں ہے۔

دل سے نکلتی ہوئی تقریروں نے ان حکمرانوں پر ایک سوالہ نشان چھوڑ دیا ہے جس کا جواب انہیں اپنے اعمال سے دینا ہوگا۔

بلوچستان سے نکلتی ہوئی فریادیں اتنی کمزور بھی نہیں ہیں جو کہ اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کو سنائی نا دیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں