بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ و رکن قومی اسمبلی سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ سیندک سے کتنا سونا، تانبا، سلور نکالا گیا اسکا کوئی اندازہ نہیں ہے بلوچستان کو صرف 2فیصد رائلٹی کا ایک پرچہ تھما دیا جاتا ہے اسی طرح صوبے سے نکلنے والی گیس کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں ہے وسائل پر سوال کرنا غداری کے زمرے میں آتا ہے، الیکشن کرانے ،تاریخ دینے والے ہم ہوتے تو ٹھیک ہوتا مگر الیکشن کروانے والے اور حالات ہموار ، ناخوشگوار کرنے والوں کے سامنے ہم بے بس ہیں۔
یہ بات انہوں نے اتوار کو کوئٹہ میں اپنی رہائشگاہ پر بی این پی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ بی این پر ہمیشہ ترقی مخالف ہونے کا الزام لگایا گیا ہم ترقی کے مخالف نہیں بلکہ ترقی کے نام پر بلوچستان کے عوام کے استحصال کے مخالف ہیں بلوچستان میں سوئی سے 1952سے گیس نکالی جارہی ہے صوبہ ملک کو 46فیصد گیس فراہم کرتا تھا جو اب 15فیصد ہے مگر آج تک بلوچستان کے لوگ اس گیس سے محروم ہیں جو کہ آئین کے آرٹیکل 52کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کو اسکی گیس کی رائلٹی بھی خیرات کے طور پر دی جاتی ہے وہ پوری ادا نہیں کی جاتی آج تک ڈیرہ بگٹی کے لوگ لکڑیا ں جلانے پر مجبور ہیں ملک میں بجلی اور گیس کا اگرچہ بحران ہے مگر بلوچستان کے لوگ اپنی ہی گیس سے محروم ہیں ترقی کے نام پر بلوچستان کے وسائل لوٹے گئے سیندک پر کام ہونے سے روزگاری کے بجائے معدنی دولت لوٹی گئی سی پیک میں گوادر بلوچستان کا نام استعمال ہوا۔مگر اصل ترقی دیگر حصوں میں ہوئی ہم نے 1999میں رتوڈیرو گوادر شاہراہ کو استحصالی منصوبہ قرار دیا تھا 2013کے بعد سی پیک کے نام پر گوادر کی تشہیر پوری دنیا میں کی گئی مگر 65ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود آج گوادر کے عوام پانی، بجلی، روزگار، ماہی گیری سے محروم ہیں، ٹرالر آکر مقامی لوگوں کا استحصال کر رہے ہیں۔