خشک روٹی ۔ تھولغ بلوچ

588

خشک روٹی

تحریر: تھولغ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان و بلوچ قوم بھی اس افغان خاندان کی طرح “گندم کی روٹی” کے لیے دن رات تگ و دو میں لگی ہوئی ہے لیکن انہیں سکوں سے دو وقت کی روٹی بھی ميسر نہیں۔

پچھلے دسمبر کی ہی بات ہے جب میں ایک ناول جو افغان انقلاب پہ لکھا گیا تھا پڑھ رہا تھا جس کا عنوان” گندم کی روٹی ” جو عبدلستار پردلی نے لکھا تھا جس کا ترجمہ ڈاکٹر شاہ محمّد مری نے کیا ہے،
اس ناول میں ایموشنل بات جو میرے دل پہ آ کے لگی وہ یہ تھی کہ جب ایک خاندان جو کسی ملک ، خان ، وڈیرے کے ہاں کھیتی کرتی تھی، پورا سال کام کرنے کے باوجود انہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا تھا ، یہاں تک کہ گندم اگانے کے باوجود انہیں گندم کا ایک دانہ بھی نصیب نہیں ہوتا تھا ، اس کام کرنے والے گھرانے کے بچوں کی ایک حسرت و خواہش یہ بن گئی تھی کہ مولا ان کو گندم کی روٹی نصیب کر دے ، ان کو گندم کی روٹی عید کے دن یا پھر اگر گھر میں کوئی مہمان آجاتا تو بچی ہوئی خشک روٹی گھر کے بچوں کو نصیب ہوتی تو منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لئے ہر کوئی بچی کھچی روٹی کا ایک ایک نوالہ کھا پاتا۔

ظالم ملک ان پہ بلا وجہ سود و قرضے لگاتا رہتا تھا یہ قرضے تھے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے ، اسی طرح جدوجہد کرتے کرتے ایک انقلاب آ پہنچا اور اس خاندان و پوری افغان قوم کو ان ملکوں ، میروں ، وڈیروں اور سرداروں سے آزادی ملی ، لیکن بد قسمتی سے افغان عوام پھر سے گزشتہ 40 سالوں سے ذلیل و خوار ہے ان کا کوئی پرسان حال نہیں ابھی حال ہی میں افغان عوام پہ ایک اور ظلم کیا گیا ایک عوامی حکومت کو گرا کر نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں کو افغانستان پر مسلط کر دیا گیا ، یہ سارا کا سارا کھیل امریکا سمیت
دنیا کی بڑی طاقتوں کا ہے جو افغانستان میں بد امنی پھیلاتے جا رہے ہیں اور اپنے اپنے مفادات حاصل کرنے میں عام انسانوں کا لہو پیش کرتے جا رہے ہیں ، یہ سلسله خدا جانے کب تک چلے گا؟

اگر بلوچستان کی حالت دیکھی جائے تو یہاں بھی افغانستان کے اس ملک و وڈیرے کی طرح کے لوگ عام لوگوں کی زندگیاں اجیرن کیے ہوۓ ہیں ، یہاں بھی ایک روٹی کے خشک ٹکڑے کے لئے لوگ صبح و شام کھیتوں میں کام کرتے ہیں لیکن جب گھر واپس آتے ہیں تو شام کو ایک روٹی تک ميسر نہیں ہوتی اگر کوئی رات کو ایک گندم کی روٹی و سالن سے کھانا کھا لے تو اسے خوش اسلوبی سمجھا جاتا ہے۔

بلوچستان کے لوگوں کا اگر ذریعہ معاش دیکھا جائے تو مال مویشی و گلہ بانی کرنا اور زمینوں پہ کھیتی کرنے سے حاصل ہوتا ہے ، بلوچستان کے لوگوں کو یہ روزگار فراہم کرنے والے یہ دو اہم پیشے بھی بارشوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہو رہے ہیں ، انہی دو پیشوں سے بلوچستان کے اکثر لوگ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی کھلا رہے ہوتے ہیں ، لیکن بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے اب دو وقت کی روٹی بھی چھننے کا ڈر ہے۔

بلوچستان کے ساحل پر بلوچ ماہی گیروں کو ماہی گیری نہیں کرنے دی جا رہی ایک مہینے تک ماہی گیراحتجاج کرتے رہے، لگتا ہے بلوچستان و اس کے باسیوں کو جان بوجھ کے بھوک و تنگ دستی میں رکھا جا رہا ہے

بلوچستان کا دیہاڑی دار طبقہ، ایک دیہاڑی دار مزدور کی زبانی

آج کے دن میری دیہاڑی لگ گئی اور میں اتنا خوش ہوں کہ لگتا ہے قارون کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہے، اور خوش کیوں نہ ہوں میرے گھر والے میری اس دیہاڑی پہ گزارا کرتے ہیں اگر میں گھر میں ایک دن رک جاؤں تو گھر میں فاقہ پڑ جاتا ہے ہمیں پچھلے دن کی بچی کچھی روٹی کے ٹکڑے کھانے پڑتے ہیں۔ بلوچستان کے بارڈر دو خود مختار ریاستوں کے ساتھ ملتے ہیں افغانستان و ایران کے ساتھ
ایران کے ساتھ ہونے والی تجارت کے ساتھ بلوچ کچھ نا کچھ کما لیتے تھے لیکن اس پہ بھی بے جا ٹیکس و پابندی سے عوام تنگ آ چکی ہے ،
اس تجارت پہ اتنی پابندی لگا کر لوگوں کو بھوک رکھا جا رہا ہے لیکن منشیات ہر گھر میں میں بڑی آسانی و زمہ داری کے ساتھ پہنچائی جا رہی ہے۔

حکومتی اداروں کو ایران سے آتا بسکٹ نظر آتا ہے اور میڈیا پہ بریکنگ نیوز بن جاتا ہےکہ فلاں جگہ ایرانی بسكٹ پکڑا گیا لیکن افسوس کہ افغانستان و دیگر علاقوں سے آتی منشیات نظر نہیں آتی جو پورے بلوچستان کے نوجوانوں کو برباد کر رہی ہے ہر گھر اس منشیات کی وجہ اجڑ گیا ہے۔

عوام کو ذہنی طور پر مفلوج کیا جا رہا ، سرکار کی طرف سے بلوچستان کی عوام کے لیے کوئی روزگار فراہم نہیں کیا جا رہا بلکہ عوام خود سے جو کچھ کاروبار کر رہی ہے اس پہ بھی پابندی لگائی جا رہی ہے جس سے بلوچستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بے روزگاری ، بھوک و افلاس بڑھتی جا رہی ہے۔

سرکار کی طرف سے اگر بلوچستان و بلوچ قوم کو کچھ ملا تو وہ ہے مسخ شدہ لاشیں ، لوگوں کی چادر و چار دیواری کی پامالی ، ہر گھر سے لوگوں کو لاپتہ کیا جا رہا ہے ، بے جا ایف سی کی پوسٹیں ، حکومتی سر پرستی میں پالے ہوۓ بھیڑیئے جو معصوم لوگوں کے جسم نوچ رہے ہیں
بس یہی کچھ بلوچستان میں وافر مقدار میں موجود ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں