جبری گمشدگیاں وفاقی حکومت کے مرضی کے بغیر ممکن نہیں – چیف جسٹس اطہر من اللہ

458

اسلام آباد ہائی کورٹ میں منگل کو لاپتہ افراد سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’جبری گمشدگیوں کے کیس میں بڑی مشکل ہی یہ ہے کہ ریاست خود جبری گمشدگیوں میں ملوث ہے-

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جبری گمشدگیوں میں وفاقی حکومت کی مرضی شامل ہوئے بغیر ایسا ممکن نہیں جب ریاست ہی خود ملوث ہو تو تفتیش کون کرے گا یہاں عدالت، وکیل صحافی یا کوئی اور تفتیش نہیں کرسکتا۔

اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سینکڑوں افراد جبری گمشدگیوں کے خلاف سڑکوں پر ہیں دن دیہاڑے لوگوں کی موجودگی میں لوگ اٹھائے جاتے ہیں لاپتہ افراد کے لئے قائم کردہ کمیشن کا کام صرف ایف آئی آر درج کرنا رہ گیا ہے ریاستی ادارے کہہ رہے ہیں کہ انکے پاس جواب نہیں –

انہوں نے کہا کہ ریاست کے اندر لوگ غائب کردئے جارہے ہوں تو ریاست تفتیش کرتی ہیں یہ نہیں کہتی کہ اسکے پاس جواب نہیں اسلام آباد جیسے شہر سے لوگ لاپتہ ہورہے ہیں دیگر علاقوں میں کیا حالت ہوگی ایسے واقعات سے غیر ریاستی عناصر کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ بھی سرگرم ہو جاتے ہیں-

جسٹس اطہر من اللہ کے مطابق جبری گمشدگیوں میں جو لوگ بھی ملوث ہیں یہ وفاقی حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا اگر ایسا ہے تو وفاقی حکومت نے پھر آئین کے تحت کوئی کارروائی کیوں نہیں کی اب وفاقی حکومت کی جانب سے ایک واضح پیغام آنا چاہیے کہ اس معاملے کو برداشت نہیں کیا جائے گا-

عدالت نے جبری گمشدگیوں کے ہائی کورٹ میں زیر سماعت کیسز کی فہرست اٹارنی جنرل کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیسز کی موثر تفتیش کے لیے تین ہفتوں کی مہلت دی اور حتمی دلائل کے لیے سماعت 14 فروری تک ملتوی کر دی۔