تربت یونیورسٹی کی اندرونی کہانی
تحریر: ظہیر عادل
دی بلوچستان پوسٹ
1۔ یونیورسٹی پر چار خاندانوں کا راج ہے۔
2۔ پورے یونیورسٹی میں تین فل پروفیسر ہیں بشمول نیا کٹھ پتلی وی سی، جس کا ایچ ای سی کے مطابق کاغذی ریکوائرمنت تو پورے ہیں لیکن صاحب بڑے آقا کے جی حضور ہیں، اپنی طاقت اور اختیار سے فیصلہ تو دور کی بات ہے، ایک فام پر بھی دستخط نہیں کرسکتے ہیں، قد کے ساتھ ساتھ صاحب میں خود اعتمادی کی شدید کمی ہے نا اہل (incompetent and inefficient) ہے۔ دوسرا فل پروفیسر ڈاکٹر صبور صاحب ہے جس نے پورے جامعہ کو یرغمال کیا ہواہے۔ تیسرا فل پروفیسر گُل حسن ہے جس کا ایم اے بلوچی، ایم فل ایل ایل ایم میں ہے، اور اس کا پی ایچ ڈی کا ڈگری جعلی ہے، لاء ڈیپارٹمنٹ میں چیرپرسن نہیں ہے، صاحب لاء کا ڈین ہیں۔
3۔ ایچ ای سی پالیسی کے برعکس تھرڈ ڈویژن ڈگری ہولڈر (مہناز اسلم، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ) کو بطور لیچکرار اپوائمنٹ کرنا۔ دوسری طرف پی ایچ ڈی ہولڈر عاصم ظہیر کی پٹیشن کو ہائی کورٹ ریجکٹ کرتا ہے، تربت یونیورسٹی اُسکو ٹیسٹ کے لیے شارٹ لسٹ نہیں کرتا کہ تھرڈ ڈویژن قابل قبول نہیں ہے۔ ہم ایچ ای سی کی پالیسی کے خلاف ورزی نہیں کرسکتے ہیں۔
4۔ یونیورسٹی کے 12 ڈیپارٹمنٹ میں سے کوئی ایک ڈیپارٹمنٹ میں بھی پرمیمنٹ چیئرپرسن نہیں ہے۔
5۔ پورے یونیورسٹی کے 12 ڈیپارٹمنٹ میں صرف دو فُل پروفیسر ہیں۔ ایک کا ڈگری جعلی ہے جس کا ذکر اوپر والے پیراگراف میں کیا گیا ہے۔ دوسرا ڈاکڑ صبور صاحب ہے جس نے پورے جامعہ کو یرغمال کیا ہے۔
6۔ نااہل انتظامیہ قابل اور زہین اساتذہ کا ٹیچنگ فیلو، وزینٹگ اور کنٹریکٹ کے نام پر استحصال کیا جارہا ہے۔
7۔ گنگزور صاحب نئے پرو وی سی کو اپنی لابی میں شامل کرکے اپنی پرانی روایت برقرار رکھا ہوا ہے۔
8 ۔ اس سے بڑی کرپشن اور کیا ہوسکتا ہے کہ سیاسی شخصیت ظہور بلیدی صاحب کا برائے راست یونیورسٹی کے اندرونی معاملات (syndicate body) میں دخل اندازی کررہا ہے یہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں ہے، دو دن پہلے منصور صاحب اپوائمنٹ ہوتا ہے اور تیسرے دن انٹریو پینل کا ممبر ہوتا ہے اور اپنے کزن (ملا نورل ملا برکت ولد) کو زیادہ مارکس دیکر بھرتی کرتا ہے۔ جسکے ٹھوس ثبوت درج ذیل پیراگراف میں دیا گیا ہے۔ باقی آپ انٹریو دینے والے امیدواروں سے اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں۔
جامعہ تربت کی کہانی بلوچستان یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل اسکینڈل سے مخلتف نہیں ہے, اسکرپٹ ایک ہی ہے بس یہاں کردار اور جامعات کے نام مختلف ہیں۔
تربت یونیورسٹی کے انتظامیہ میں بیٹھے چھوٹے قد کے لوگ نوجوان نسل کا کردار سازی کے بدلے اسٹوڈنٹ کو صرف سامراجی نصاب تک محدود کررہے ہیں، اس طرح کے سامراجی ہتھکنڈوں سے نوجوان نہ صرف کلرک ہوتے ہیں بلکہ زہنی غلام بنتے ہیں۔
یونیورسٹی انتظامیہ کے اعلیٰ سطح پر جعلی لوگوں کو مسلط کرنا یہ ایک سوچا سمجھا نوآبادیاتی منصوبہ بندی ہے تاکہ طلبہ اور طالبات کو نفسیاتی طور پر مفلوج کیا جائے۔ اِسی سامراجی ادارے میں ایک دو آزاد خیال اور سنجیدہ اساتذہ بھی ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ اسٹوڈنٹس روبوٹ نہ بنیں، بلکہ آذاد اور خودمختار انسان بنیں لیکن نااہل انتظامیہ اُن ٹیچرز کے لیے مسلسل رکاوٹیں پیدا کررہے۔
جامعہ تربت کی نااہل انتظامیہ سے کوئی ذی شعور شخص انکاری نہیں ہے۔ لیکن ہم اگر صرف انتظامیہ کی نااہلی پر فوکس کریں اور یونیورسٹی کے تمام خوبیوں کو اگنور کریں تو یہ ایک تاریخی غلطی ہوگی اور یونیورسٹی کے ساتھ بھی ایک قسم کی ناانصافی ہوگی مثال کے طور پر پورے یونیورسٹی میں گرلز اور بوائز کے ایک ساتھ مطالعہ خوشگوار ماحول پیدا کرنا اچھی بات ہے، جس نے معاشرے کے سماجی ڈھانچے کو کسی حد تک فائدہ پہنچایا ہے۔
اگر اِسی تعلیمی ماحول کو مزید آذاد کیا جائے، لڑکا و لڑکیوں کی میل جول کو مزید تقویت دی جائے، اسٹوڈنٹس کو مزید نفسیاتی، جذباتی اور زہنی آذادی دی جائے تو انکی مذید ایکسپوزر ہوجائے گا انُکی اندورنی صلاحیتیں مذید نکھر جاتے ہیں۔ یہی اسٹوڈنس آگے نکل کر قوم اور سماج کے لیے بہترین تخلیقی کام کرسکتے ہیں۔
تربت یونیورسٹی کے نااہل انتظامیہ کے گروی حرکتوں کے باوجود اس جامعہ نے اپنے ارتقائی عمل کے دوران اچھا خاصا نتیجہ دیا ہے جیسا کے حالیہ دنوں میں یونیورسٹی کے بہت سارے اسٹوڈنٹس نے ایس ایس ٹی، لیکچرار شپ کے ٹیسٹ اور انٹرویو کلیئر کئے ہیں اور سی ایس ایس و کمیشن کی تیاری کررہیں۔
یہاں یہ بات بھی کلیئر ہو کہ نااہل انتظامیہ روزِ اول سے اسٹوڈنٹس کے کھلے فضا کو تنگ کرنے کے لیے مخلتف سامراجی حربے استعمال کررہا ہے مثال کے طور پر تربت یونیورسٹی میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگانا ایف سی صاحب کا مرضی اور منشا ہے۔ لیکن سیاسی سرگرمیوں کی بندش کا نوٹیفیکیشن نااہل انتظامیہ کی طرف سے جاری ہوتا ہے کہ “تربت یونیورسٹی کے دائرے میں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی کی اجازت نہیں ہے، نوٹیفیکیشن کی خلاف ورزی کرنے کی صورت میں اسٹوڈنٹ کے ایڈمیشن کینسل ہوسکتے ہیں” یہ سارے سامراجی ہتھکنڈوں کا بنیادی مقصد نوجوان نسل کو سیاسی شعور سے دور رکھنا ہے، انکی سیاسی تربیت اور بصیرت کو محدود کرنا ہے۔ اب ہمیں کوئی صاحب علم رہنمائی کرے، کیا تربت یونیورسٹی ایک خودمختار باڈی یا فوجی چھاؤنی ہے؟
چلو 5 منٹ کے لیے یہ بات مان لیتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی سرگرمی سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ لیکن یہ کونسا مذاق ہے، کہیں گرلز و بوائز آپس میں گروپ مطالعہ کررہے ہیں نااہل انتظامیہ کو ممنوع کرتا ہے، لڑکا اور لڑکی کی آپس مطالعہ کرنے میں یونیورسٹی کو کونسا خوف محسوس ہورہا ہے۔
پھر دیکھ لیجئے گروپ مطالعہ کو روکنے کے لیے نااہل انتظامیہ نے ایک دو بوڑھے خواتین کو جاسوسی کی ڈیوٹی پر لگایا ہے۔ ان دو خواتین کا روٹی روزی کمانے کا ذریعہ یہ ہے کہ وہ جہاں بھی لڑکا اور لڑکی ایک ساتھ بیٹھے ہوں، گروپ مطالعہ کررہے ہوں یا کارنر میٹنگ کررہے ہوں ان کو روک لینا اور انتظامیہ کو انٹیلجنس فراہم کرنا کہ یونیورسٹی کے فلاں کارنر پر دو نوجوان ایک ساتھ بیٹھے ہیں، آپس میں گپ شپ کر رہیں، اگر دو انسان آپس میں اپنی مرضی و منشا سے ایک دوسرے سےبات چیت کررہے ہیں اس میں نااہل انتظامیہ کو کیا تکلیف ہے۔
نااہل انتظامیہ کی نااہلی قابلِ فہم بات ہے، لیکن چند معزز ٹیچرز بھی اِسی شّر سے محفوظ نہیں ہیں، وہ بھی اسٹوڈنٹس کو جبراً کم مارکس دیتے ہیں تاکہ اسٹوڈنٹس خاص طور پر فی میل اسٹوڈنٹ انُکے جی حضور بنیں، بیچارے ٹیچرز بھی نااہل انتظامیہ کے زیر اثر ہیں وہ بھی انسان ہیں، انُکے بھی انسانی خواہشات ہوتے ہیں۔ مظلوم اسٹوڈنٹس اسُتاد کی خوشنودی کے لیے چاپلوسی اور چمچہ گری کرنے پر مجبور ہیں۔
تربت یونیورسٹی کے نااہل انتظامیہ میں خاص طور پر دو اشخاص رجسٹرار گنگزور بلوچ اور پرو وی سی منصور صاحب کا نام سر فہرست ہیں۔ پرو وی وسی صاحب عمر میں چھوٹا اور چہرے سے بہت معصوم لگتے ہیں لیکن اندورنی طور پر یہ بڑے چالاک اور مکار آدمی ہیں، آتے ہی اپنے کردار کو محفوظ رکھنے کے لیے وومن ڈویلپمنٹ کے ریجنل ڈائریکٹر کو دعوت دیا۔ میڈم جی تسُی آجاوُ دو چار فوٹو سیشن کرتے ہیں اور لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں، تاکہ لوگوں کو یہ یقین ہو ہم یہاں جنڈر ڈویلپمنٹ، وومن ایمپاورمنٹ، جنسی امتیازات کو ختم کرنے کے لیے کام کررہیں۔ لیکن انکے حقیقی عزائم اور مقصد بالکل مختلف تھے اصل میں یہ وفد ایف سی کی آشرواد سے آئی تھی تاکہ وہ ایک منظم طریقے سے میجر اور بریگیڈیئر کی عیاشی کے لیے راستے ہموار کرسکیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں