آج بزور جمعرات “حق دو تحریک” کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن دورہ پہ پنجگور سے تربت پہنچ گئے جہاں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔
حق دو تحریک بلوچستان کے زیر اہتمام تربت میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن بلوچ نے کہا کہ 19 اگست سے سربندن میں شروع ہوئی یہ تحریک آخری سیاسی مزاحمت کار تک جاری رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ 15 نومبر سے 32 روزہ دھرنے کو بلوچستان حکومت کے ساتھ تحریری معاہدہ کے بعد ختم کردیا، ایف سی ایک فورس نہیں بلکہ لوٹ مار کا ذریعہ ہے، عوام کو چاہیے کہ ڈر اور خوف سے آزاد ہوکر اپنی آواز بلند کریں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ سرزمین بلوچ کی ماں ہے کسی جرنیل اور کرنل کی میراث نہیں، آنے والے دنوں کے اندر مکران میں ایف سی کے خلاف ریفرنڈم کرنے جارہے ہیں، دستخطی مہم کے ذریعے ایف سی کو یہاں نکالنے کی مہم شروع کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ حیات بلوچ جیسے نوجوانوں کو سرعام گولی مار کر قتل کیا جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ یہ غلطی تھی، آگر ایسی غلطی ہم بھی کرتے ہیں کیا ہمیں بھی معاف کیا جائے، کلبوشن جیسوں کو جو عزت دی جاتی ہے اگر یہی عزت بلوچ نوجوان کو دیا جاتا تو یہ نوبت نہیں آتی، کلبوشن کو بچانے کے لیے آئینی ترمیم کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کیچ کے ہسپتال میں ایک پیناڈول گولی نہیں ملتی مگر کریسٹار اور شیشا آسانی سے دستیاب ہے، ہم بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ملک دشمن اور غدار ہیں ہم غدار نہیں ملک دشمن نہیں بلکہ انصاف چاہتے ہیں کسی کرنل و جرنل کی شاہیت نہیں مانیں گے، پٹرول ڈیزل اور روغن غیر قانونی ہے لیکن شیشا اور کریسٹار کا کاروبار جائز ہے، بارڈر پر جتنی کمیٹیاں بنائی گئی ہیں ان سب کے سربراہ منشیات فروش ہیں، ہمارے جوانوں کو اٹھاکر غائب کیا جاتا ہے، لاشیں پھینکی جاری ہیں، 73 کے آئین کے تحت کسی ادارے کو اختیار نہیں کہ وہ نوجوانوں کو لاپتہ کرے، کسی نے اگر گناہ کیا تو اسے عدالت میں پیش کیا جائے، سی پیک کا سن کر ہم خوش ہوئے کہ اب دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی، خوش حالی آئے گی، روزگار ہوگا مگر بلوچستان کے مقدر میں صرف چیک پوسٹ اور چوکیاں آئیں، ڈاکٹر اور ماسٹر نہیں ملے ہمیں بندوق بردار فوجی دیے گئے، چیک پوسٹ اور چوکیوں پر ہماری تزلیل ہورہی ہے اس کے خلاف ہم سب کو مل کر جدوجہد کرنی چاہیے، بلوچستان کسی جرنیل یا فوجی کرنل، لینڈ مافیا و ڈرگ مافیا اور سردار و نواب کی جاگیر نہیں بلکہ بلوچ عوام کی سرزمین ہے، ڈرگ مافیا اداروں سے زیادہ طاقت ور ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو شہر کی صفائی کرتے اور گندگیاں مٹاتی ہیں ان کی تنخواہیں بند ہیں، اگر ڈی سی، کمشنر یا کسی آفیسر کا تنخواہ بند ہوتا تو کیا ہوتا، چیف جسٹس آف پاکستان یا سپریم کورٹ کے ججز ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو ان کی ماہانہ پنشن دس لاکھ ہوتی ہے، کوئی کور کمانڈر ریٹائرڈ ہوتا ہے تو سو فیکٹریوں کا مالک ہوتا ہے لیکن ہمارے میونسپل کارپوریشن کے ملازمین کی تنخواہ چھ ہزار ہے اور انہیں یہ چھ ہزار بھی چھ مہینوں سے نہیں دیے جارہےہیں، میونسپل کمیٹی کے ملازمین کی تنخواہوں کا مسئلہ اگر حل نہیں کیا گیا تو یہ حق دو تحریک کے چارٹر میں شامل ہوگا
انہوں نے کہا کہ چیک پوسٹ کا خاتمہ، ٹرالر مافیا اور بارڈر مافیا کے خاتمے تک تحریک جاری رہے گا، منشیات کے خلاف تربت سول سوسائٹی کے تحریک کی حمایت کرکے 25 مارچ کو اس میں شامل ہوں گے منشیات کے خلاف اگر قانون توڑنا پڑے تو توڑ دیں گے، منشیات فروشوں کے گھروں کو جلا دیں گے اگر اس میں ہماری جان بھی چلی جائے تو ہم حاضر ہیں۔
جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے معروف قوم پرست رہنما حسین واڈیلہ نے کہا کہ بلوچوں کے پاس درد و الم کے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ بلوچ نوجوان جب گھروں سے نکلتے ہیں تو واپسی پر ان کی لاشیں برآمد ہوتے ہیں یا وہ سرے سے غائب ہوتے ہیں، سراج جیسے نوجوانوں کی شہادت ڈر اور خود پیدا کرنا ہے، خوف بلوچ کے لیے عیب اور مذہب میں جرم و گناہ ہے، بلوچ جبر سے کبھی خوفزدہ نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ ایف سی کی چیک پوسٹ اور چوکیاں شہروں میں ابھی تک قائم ہیں حالانکہ ہم سے معاہدہ کیا گیا تھا کہ ایسے تمام چیک پوسٹ اور چوکیاں ہٹادی جائیں گی، ناصرآباد میں بم دھماکہ کے بعد پورے بازار کو بند کیا گیا حالانکہ لاہور میں مشرف پر بم حملہ ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کو سی ٹی ڈی کے ذریعے جعلی مقابلوں میں شہید کیا جارہا ہے، ہوشاپ میں چار بچوں کو گرفتار کیا گیا اور ان پر سانحہ پرکوٹگ کا الزام لگایا جسے لواحقین نے مسترد کردیا ہے، بارڈر پر ٹوکن سسٹم لگاکر لوگوں کو زلیل کیا جارہا ہے، حق دو تحریک بلوچ ننگ و ناموس کا نگہبان ہے، کچھ کم شرف لوگ الزام لگا رہے ہیں مگر وہ بزدل ہیں ہماری وجہ سے ان میں کچھ جرات پیدا ہوا ہے، گومازی میں ایک بلوچ کے گھر پر قبضہ کرکے ایف سی نے چوکی بنائی ہے کمشنر مکران سے کہتے ہیں کہ وہ یہ قبضہ گیری ختم کرے، حق دو تحریک نے بلوچ تحریک کو دوبارہ زندہ کیا،
انہوں نے کہا کہ ایک لیڈر بڑھکیاں ماریا ہے کہ ہم جام کمال کے اتارنے کی ثواب میں شامل رہے مگر قدوس کو لانے کے گناہ میں شامل نہیں ہیں ان کو شرم آنا چاہیے، ریکوڈک کو چوری چھپے بیچنے میں یہ سب کردار شامل ہیں، ریکوڈک بلوچ کی ملکیت ہیں، اسمبلی میں 65 گدھے بیٹھے ہیں اگر ان میں سے کوئی گھوڑا ہے تو سامنے آئے اور ثابت کرے کہ وہ گھوڑا ہیں گدھے نہیں، سونے سے مالا مال سرزمین کے مالک بچوں کے پاؤں میں معمولی جوتے بھی نہیں، دو نمبر اسمبلی ممبران کی وجہ سے بلوچ زلیل و خوار ہیں، جو سماج میں میر اور معتبر بنائے گئے ان کو کیمپوں میں مرغا بنایا جاتا ہے، چھ مہینوں سے بلدیہ ملا زمین کو تنخواہ نہیں دی جارہی ہے جو سراسر ظلم و زیادتی ہے، وزراء کی عیاشی کے لیے بجٹ ہیں مگر جو طبقہ گندگیاں صاف کرتے ہیں ان کو تنخواہ سے محروم رکھا جارہا ہے۔
جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست نے اعلان کیا کہ تربت سول سوسائٹی 25 مارچ سے منشیات کے خلاف تربت سے پیدل مارچ کرکے کوئٹہ جائیں گے جہاں پہ ریڈ زون میں دھرنا دیں گے، انہوں نے کہاکہ منشیات، بارڈر اور ٹرالنگ مافیا کے خلاف ہمیں پارٹی بازی سے بالاتر بلوچ ہوکر اٹھنا ہوگا، کیونکہ یہ عناصر بلوچ کے دشمن ہیں ان سے بلوچوں کی پوری نسل اور معیشت تباہ ہورہی ہے، انہوں نے کہاکہ ایرانی بارڈر سے ہماری صدیوں کی تعلق ہے، جب یہاں باؤنڈری لائن نہیں اور کوئی ملک نہیں تھا تب بھی بلوچ ایران کے ساتھ رابطہ اور تعلقات رکھتے اور کاروبار کررہے تھے، انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں بلوچ نوجوانوں کا اغوا، ان کے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کے بعد اب سی ٹی ڈی کے نام پر ان کا قتل معمول بن گیا ہے، بلوچ عوام کو ریاستی مظالم اور درندگی کے خلاف یکمشت ہوکر آواز بلند کرنا اور اپنی سرزمین کا تحفظ کرنا ہوگا ورنہ طاقتور قوتیں بلوچ کو نیست و نابود کردیں گے۔