بلوچ کونسلز کا بڑھتا ہوا غیر سیاسی رحجان ۔ نیمروش

436

بلوچ کونسلز کا بڑھتا ہوا غیر سیاسی رحجان

تحریر: نیمروش

دی بلوچستان پوسٹ

جب بھی بلوچ، بلوچستان اور بلوچ تحریک پر بات کی جائے تو اس میں بلوچ طلباءَ کا ایک واضح کردار نظر آتا ہے بلوچ سیاست اور بلوچ طلباء ایک ہی حصے کے دو لازمی جزو ہیں ویسے تو بلوچ طلباء سیاست کو ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے بلوچ طلباءَ نے بلوچ سماج کو ایک واضح سمت دینے میں اپنا ایک کلیدی کردار اد کیا ہے۔ بلوچ طلباءنے اپنے سرگرمیوں کا آغاز بیسوں صدی میں پاکستان کی آزادی سے پہلے کیا تھا لیکن بلوچ طلباءَ نے واضح اور ادارہ جاتی شکل میں اپنے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ساٹھ کی دہائی میں کیا جب بلوچ وانندہ گل اور پھر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزئیشن کا قیام عمل میں لایا گیا، بلوچ اسٹوڈنس آرکنائزیشن نے بلوچ طلباءَ سیاست کو ایک واضح سمت دیا، ستر کی دہائی میں جب بلوچستان پر بھٹو حکومت کے دوران ایک گہرا عذاب نازل تھا تمام بلوچ سیاسی رہنما پابندِ سلاسل تھے تو بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن اور بلوچ طلباءَ نے ہی قومی سیاست کو آگے بڑھایا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن بی ایس او کو بلوچ قوم کا حافظہ قرار دیا گیا تھا۔

2002 میں جب بی ایس او آزاد کا قیام عمل میں لایا گیا تو بلوچ طلباءَ سیاست کو بلوچ قومی آزادی کے حوالے سے ایک واضح سمت ملی اور بلوچ طلباءَ سیاست کو واضح سمت ملنے کے بعد اور بلوچ طلباءَ سرگرمیوں میں اضافے کے سبب ریاست نے بھی بلوچ طلباءَ سیاست کے خلاف اپنے سرگرمیوں کا ایک بڑے پیمانے پر آغاز کیا اور بلوچ طلباءَ کو جبری طور اغوا کرنے اور مسخ شدہ لاشیں ملنے ایک سِلسَلہ چل پڑا، اس سے گراؤنڈ پر موجود طلباءَ کو زیرِ زمین اپنے سرگرمیوں کو جاری رکھنا پڑا۔ ریاست کو جب بلوچ طلباءَ کے اپنے موقف میں کوئی تبدیلی دیکھتا ہوا نظر نہیں آیا تو انہوں نےمختلف طریقوں سے بلوچ طلباءَ کو دبانے کی کوشش کی، ان میں ایک بلوچستان طلباءَ کے لیے پنجاب کے مختلف جامعات میں بلوچستان کے طلباءَ کے لیے مختص سیٹوں کا آغاز کرنا تھا تاکہ یہاں پر رہ کر بلوچ طلباءَ بلوچستان اور بلوچ سیاست سے دور رہیں اس سارے عمل کو دیکھتے ہوئے بلوچ طلباءَ سیاست کے سنجیدہ لوگوں نے پنجاب اور وفاق میں پڑھنے والے بلوچ طلباءَ کے لیے بلوچ کونسلز کا قیام عمل میں لانے کی کوشش کی اور تقریباً تمام جامعات میں بلوچ کونسلز کا باقاعدہ قیام عمل میں لایا گیا۔

بلوچ کونسلز کے قیام کا مقصد واضح طور پر بلوچستان سے آنے والے طلباء کی سیاسی تربیت تھی تاکہ بلوچستان سے آنے والے طلباءَ جب پنجاب اور وفاق کے جامعات کا رخ کریں تو وہاں پر جا کر کسی غیر سیاسی سرگرمی کا حصہ نہ بن سکیں بلوچ کونسلز کو ان کے لیے ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جو ان کی تعلیمی حوالے سے مدد کے ساتھ ساتھ سیاسی حوالے سے بھی تربیت کر سکے لیکن کچھ عرصہ بعد بلوچ کونسلز نے اپنے لیے غیر سیاسی ہونے کا نعرہ بلند کیا، ہمارا سیاست سے کوئی کام نہیں ہم صرف تعلیمی حوالے سے طلباءَ کی تربیت کریں گے اس کی وجہ ایک تو وہاں کچھ غیر سیاسی لوگوں کا کونسلز کے اوپر اجارہ داری اور دوسرا ان غیر سیاسی لوگوں کا ان جامعات میں کچھ مقتدرہ قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنا تھا وہ بلوچ طلباءَ جو کبھی بلوچ اور بلوچستان کی سیاست کرتے تھے اب جامعات میں دیگر تنظیموں کی طرح کیمپس پالٹیکس تک محدود ہوگئے تھے۔ ایک طرف وہ غیر سیاسی کا نعرہ لگاتے تھے تو دوسری طرف خود کو کیمپس پالیٹیکس میں دوسری تنظیموں کے ساتھ بلوچ طلباءَ کو لڑانے میں مشغول تھے۔ وہ کبھی ھاسٹلز کے لیے لڑائیوں میں بلوچ طلباءَ کو استعمال کر رہے تھے تو کبھی کنٹینوں میں کھانے کے نام پر لڑائیوں میں مشغول جب غیر سیاسی ہونے کے دعوے تو ظاہر سی بات ہے کہ کام بھی اسی طرح کے ہوں گے۔

بلوچ کونسلز ایک عرصہ تو بلوچ طلباءَ کی تربیت سے زیادہ اپنے آپ کو دیگر گینگ تنظیموں کی طرح گینگ بننے کی مشغلے میں مشغول رہے اس کا واضح مثال بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان پنجاب یونیورسٹی لاہور اور قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بلوچ کونسلز کا دیگر طلباءَ تنظیموں کے ساتھ لڑائیوں میں نظر آنا ہے۔ ان سب کو دیکھتے ہوئے کچھ بلوچ طلباءَ نے کونسلز کی از سر نوتشکیل کی کوشش کی تو انھیں بھی بہت سارے مُشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ پنجاب کے کونسلز میں ایک ایسا گرہ اپنے آپ کو مظبوط کر چکا تھا جو کبھی بھی بلوچ طلباءَ کو سیاسی حوالے سے منظم نہیں ہونے دے رہا اور ایک وجہ اس میں بلوچستان میں کام کرنے والے ان تنظیموں کا بھی ایک بڑا ہاتھ جن کو بلوچستان میں پارلیمانی اور سیاسی پارٹیاں سپورٹ کرتی ہیں۔

جب بھی بلوچ کونسلز میں موجود کچھ سنجیدہ طلباءَ نے کونسلز کو سیاسی حوالے سے منظم کرنے کی کوشش کی یا کوئی سیاسی سرگرمی کی کوشش کی تو انھیں بلوچ اسٹوڈنٹ ایکشن کمیٹی کے ممبر ہونے کا نام دے کر کونسلز سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ ایکشن کیمٹی اور بلوچ کونسلز میں ایک مشترکہ بات کی ہے کہ انھیں کسی سیاسی پارٹی کی حمایت حاصل نہیں۔ پنجاب میں تو اب کونسلز ایک مشترکہ ہجوم کا شکل اختیار کر چکے ہیں جن میں نہ کوئی سیاسی سوچ پایا جاتا ہے اور نہ ہی ان میں کوئی سیاسی سمت ہے۔ وہ ایک ہجوم کے علاوہ کچھ بھی نہیں کچھ کونسلز تو اس حد تک غیر سیاسی رویوں کا شکار ہو چکے ہیں کہ ان کے سسٹڈی سرکلز میں بلوچستان اور بلوچ نام لینے تک کی پابندی ہے لیکن وفاق میں بلوچ کونسلز کا کردار اب ایک واضح حد تک تبدیل ہو کر بہتری کی جانب گامزن ہے۔

وفاق کے بلوچ کونسلز نے اپنے آپ کو بلوچ اسٹوڈنٹ کونسل اسلام آباد چپیٹر کے نام پر کافی حد تک پر اپنے آپ کو منظم کر رکھا ہے لیکن پنجاب کے بلوچ کونسلز اب بھی اپنے غیر سیاسی رویے پر گامزن ہیں۔ جن کے لیے سب سے بڑا کام طلبا کے داخلے اور ھاسٹل کے مسائل ہی ہیں، پنجاب میں غیر سیاسی ہونے کے تین بڑے وجوہات ہیں ایک وہاں پر کچھ ایسے لوگوں کا اجارہ داری جن کا دور دور سے بھی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔

دوسرا وہاں پر ایک ڈر کے ماحول کا بنا کر رکھنا کوئی سیاسی سرگرمی اور طلباءَ کے درمیان ڈر کی وجہ سے سیاسی ڈسکشن اور ڈبیٹ کا نہ ہونا تیسرا اور اہم وجہ ان کے سرکلز کا غیر سیاسی اور جنرل موضوعات پر ہونا ۔

اب بھی وقت ہے کہ کونسلز ان چیزوں سے خود کو نکال کر ایک واضح سیاسی سمت دیں کونسلز کا ایک واضح اور سیاسی موقف ہی بلوچستان سے باہر پڑھنے والے طلباءَ کے لیے سیاسی تربیت کا باعث بنے گا ورنہ کونسلز اس حالت میں کبھی بھی بلوچ طلباءَ کے لیے ایک درسگاہ نہ بن پائیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں