بلوچستان اور سال2021 ۔ محمد اعظم الفت

262

بلوچستان اور سال2021

تحریر: محمد اعظم الفت

دی بلوچستان پوسٹ

سال 2021 بلوچستان میں سیاسی طور پر بڑی تبدیلیوں کا سال رہا۔ لا اینڈ آرڈر صورتحال گذشتہ سالوں کی نسبت بہتر رہی، بلوچستان میں سال 2021 گذشتہ برسوں سے بہت مختلف نہیں رہا۔ سال کے آغاز ہی میں مچھ بولان میں نو کانکنوں کو بیدردی سے قتل کیا گیا۔ واقعہ sectarian killings کا شاخسانہ تھا۔ ورثا کے ساتھ ہزارہ کمیونٹی نے ایک ہفتہ تک مغربی بائی پاس پر لاشوں کے ساتھ احتجاج کیا۔ مقتولین کی تدفین وزیراعظم کی کوئٹہ آمد اور مظاہرین سے ملاقات کے بعد عمل میں آئی۔

مارچ اور اپریل سے کورونا کیسز کی وجہ سے سمارٹ لاک ڈاو¿ن رہا۔ کورونا کے کیسز میں تو بلوچستان میں ریکارڈ کمی آئی لیکن سیاسی کشمکش اور عوام کے نمائندہ ایوان میں سال کے وسط سے شروع ہونے والا بحران با لاخر وزارت اعلیٰ کی تبدیلی کے ساتھ ختم ہوا۔ میر عبدالقدوس بزنجو 2018 میں نواب ثنا اللہ زہری اور 2021 میں جام کمال کی وزارت ختم کرکے کامیاب سیاسی گیم چینجر کے طور پر سامنے آئے۔

مارچ میں بہت سے اعتراضات کے ساتھ کچھ نئے اور کچھ پرانے سیاسی پلئیرز بلوچستان سے ایوان بالا کیلئے منتخب ہوئے۔ ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ مائینز کیس انٹرنیشنل میڈیا میں نمایاں رہا۔ برٹش ورجن آئی لینڈز ہائی کورٹ فیصلہ کے بعد مئی میں بیرون ملک پاکستان کے اہم قومی اثاثے بحال بھی ہوئے۔

جون میں 84 ارب روپے خسارے کے ساتھ بلوچستان کا 584 ارب روپے سے زائد کا بجٹ پیش کیا گیا۔ جولائی میں سید ظہور آغا کو جسٹس امان اللہ یاسین زئی کی جگہ گورنر کا منصب دیا گیا۔ جولائی ہی میں وزیراعظم عمران خان نے گوادر دورے میں ناراض بلوچوں سے مذاکرات کا عندیہ دیا جس کے بعد نوابزادہ شاہ زین بگٹی وزیر اعظم کے معاون خصوصی بنائے گئے۔ جولائی کے آخر میں خواتین کو وراثت میں حق دینے کے حوالے سے بھی بلوچستان ہائی کورٹ کا تاریخی فیصلہ سامنے آیا۔ جولائی ہی میں ویمن ٹی ٹوینیٹی کرکٹ ٹورنامنٹ کے کامیاب انعقاد بھی کوئٹہ میں ہوا۔

جسٹس جمال مندوخیل کی سپریم کورٹ تقرری کے بعد جسٹس نعیم اختر افغان عدالت عالیہ بلوچستان کے چیف جسٹس بنے۔ سانحہ آٹھ اگست سول اسپتال کو پانچ سال پورے ہوگئے لیکن وکلا سانحہ کی تحقیقاتی کمیشن رپورٹ پر عمل درآمد کے منتظر ہی رہے۔ کوئٹہ پشاور کے درمیان پی آئی اے کی فلائیٹ سروس بھی بارہ سال بعد اگست میں بحال ہوئی۔

سال 2021 میں بااثر قبائلی اور اور ممتازسیاسی شخصیت سردار عطا اللہ مینگل دو ستمبر کو 92 سال کی عمر میں طویل علالت کے بعد وفات پاگئے۔ سردار عطا اللہ مینگل ون یونٹ کے خاتمے کے بعد جب بلوچستان کو صوبے کا اسٹیٹس دیا گیا تو پہلے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ نیپ کی اس حکومت کو صرف نو ماہ ہی چلنے دیا گیا۔ لیکن مدبر سیاست دان نے قلیل مدت میں ٹیکسیشن ، پولیس ریفارمز اور دیگر انتظامی ڈھانچہ کو تیار کیا۔ زوالفقار علی بھٹو حکومت کے خاتمہ تک نیپ کی قیادت کے ساتھ جیل میں رہے۔ ضیاالحق کے پورے دور میں لندن جلا وطن رہے۔ 1990 میں بلوچستان آئے اور بی این پی کی بنیاد رکھی۔ سردار مینگل ، نواب خیر بخش مری اور نواب اکبر خان بگٹی کے ہم عصروں میں سے تھے۔ سردار صاحب کا شمار بلوچستان کے حقوق کی آواز بلند کرنے والے سرخیلوں میں ہوتا ہے۔ مرحوم کی وفات کراچی میں ہوئی سپرد خاک آبائی علاقہ وڈھ خضدار میں کیا گیا۔ کو آبائی علاقہ وڈھ خضدار میں سپرد خاک کیا گیا۔

ستمبر میں کوئٹہ ، ژوب اور لورالائی کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات ہوئے۔ ستمبر کی 17 تاریخ کو اپوزیشن پھر اکتوبر کے آغاز میں حکمران جماعت کے ناراض ارکان کی طرف سے قائد ایوان جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد سامنے آئی۔ میر تاج جمالی ، سردار اختر مینگل اور نواب ثنا اللہ زہری کی طرح جام کمال کو بھی مستعفی ہونا پڑا۔ 29 اکتوبر کو میر عبدل قدوس بزنجو نئے قائد ایوان بنے۔ ڈویلپمنٹ سیکٹر میں کچھ سڑکیں تعمیر ہوئیں۔ ڈویلپمنٹ پراجیکٹس اور فنڈز کی تقسیم جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی بڑی وجہ بھی تھی۔

پندرہ نومبر سے گوادر حق دو تحریک کے دھرنے شروع ہوئے۔ ایک ماہ بعد احتجاج ختم ہوا لیکن بارڈر ٹریڈ ، بلا جواز چیک پوسٹوں اور غیر قانونی فشنگ کے حوالے سے بہت سے سوالات چھوڑ گیا۔

دسمبر میں مبینہ وڈیو اسکینڈل بھی سال 2021 میں سامنے آیا۔ 2019 کے یونیورسٹی آف بلوچستان سکینڈل کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ تھا جس نے معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھا دیا۔ شاید کسی کے زہن و گمان میں بھی نہیں تھا کہ قبائیلی معاشرہ میں اس طرح کا اسکینڈل رونما ہوسکتا ہے۔

اوردسمبر کی 27تاریخ کو بلوچستان کی تاریخ کا پہلا ان کیمرہ اجلاس ہوا اجلاس میں اراکین کو ریکوڈک کے حوالے سے بریفینگ دی گئی ۔ اس بند کمرہ اجلاس میں اپوزیشن کی جماعتوں نے نہ صرف شرکت کی بلکہ ریکوڈک معاہدے کو منظر عام پر لانے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا گیا ۔

ڈاکٹرز مریضوں کو چھوڑ کر احتجاجوں پر ہی رہے۔ مسائل در مسائل کا شکار عوام اور مریض ینگ ڈاکٹرز کی بار بار کے احتجاجوں اور غیر موثر علاج سے تنگ کراچی اور پنجاب علاج کیلئے جانے پر مجبور ہی نظر آئے۔

عزم مضبوط ہو تو ناممکن کچھ بھی نہیں۔ 2022 میں ماضی سے کتنی بہتر تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ یہ ہمارے انفرادی اور اجتماعی عمل پر منحصر ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں