بلوچستان آج پھر میر چاکر و نوری نصیر خان کا منتظر ۔ تھولغ بلوچ

826

بلوچستان آج پھر میر چاکر و نوری نصیر خان کا منتظر

تحریر: تھولغ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر میر چاکر اعظم اور نوری نصیر خان کو بلوچوں کا سکندر اعظم کہا جاۓ تو بیجا نا ہو گا۔ یہ وہ دو قد آور نام ہیں جنہوں نے بکھری بلوچ قوم کو ایک الگ ریاست اور ایک جھنڈے کے سائے تلے اكٹھا کیا، بلوچ قوم کو ایک ملک بناکر دیا۔ بلوچ قوم میں پھر کوئی اسی طرح کا پیدا نہیں ہوا جو بلوچ قوم اور بلوچستان کو ایک ساتھ لیکر چلا ہو۔

بلوچ قوم جہاں پہ آباد ہے وہ علاقہ مشرق و مغرب کو جدا کر رہا ہے دنیا کے جتنے بڑے حملہ آوروں نے ہندوستان پہ حملے کئے وہ بلوچستان کی سر زمین سے اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں کی گھنگرج سے بلوچ سر زمین سے ہوتے ہوۓ آگے بڑھے، بلوچ سر زمین نے مختلف حملہ آوروں کے بے دریغ حملے اپنے سینے پہ سہے۔

بلوچستان پہ تاتاری، ترک، منگول، سکندر اعظم نے بلوچستان پہ حملے کئے، ہندوستان کی مغلیہ سلطنت ہٹانے میں اور بہادر شاہ ظفر کا تختہ الٹنے کے بعد گوروں ( ایسٹ انڈیا کمپنی ) نے بھی بلوچستان کا رخ کیا ، جس طرح گورے ہندوستان کو لوٹ کر انگلینڈ لے گئے تھے اسی طرح وہ رياست قلات ( بلوچستان ) کے خزانے لوٹ کے اونٹوں پہ لاد کے کلكته لے گئے تھے۔

بلوچستان میں انگریزوں کے خلاف جنگ شروع ہو گئی تھی بلوچ نے کسی بھی دور میں اپنے سر زمین پہ آسانی سے کسی کو قبضہ نہیں کرنے دیا۔

انگریزوں کی بلوچستان پہ قبضے سے پہلے بلوچستان صدیوں سے ایک آزاد ملک تھا، جس کا اپنا جھنڈا تھا ، اپنی کرنسی تھی اور اپنا ایک سیاسی و سماجی نظام تھا بلوچستان کے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔

بلوچستان کے ہمسایہ ممالک میں ایران ، افغانستان ، پنجاب و سندھ کے علاقے تھے اور ساتھ ہی ایک بہت بڑا ساحل بھی تھا جس سے بلوچستان مشرق وسطیٰ کے ساتھ تجارت کرتا تھا۔

انگریزوں کے بلوچستان میں آنے کے بعد اکثر بلوچ قبائل نے مزاحمت کرنا شروع کر دی اور انگریز بہت بری طرح بلوچوں کے حملوں سے متاثر ہوئے اور انگریز باخوبی سمجھ گئے تھے بلوچ سر زمین پہ طاقت کے زور پر قبضہ کرنا مشکل ہے تو گوروں نے بھائی کو بھائی کا دشمن بنا کر اپنا کام آسان کر دیا۔

بلوچستان کے اصل وارث و قوم کے خیر خواہ انگریزوں کے خلاف جنگ کرنے میں مصروف تھے ، تو شاطر انگریزوں نے لالچی لوگوں کو سردار بنانا شروع کر دیا اور بلوچوں کو دبانے کا کام ان دو نمبر سرداروں سے لیتا رہا۔

جس نوری نصیر خان نے بلوچ و بلوچستان ریاست قائم کرنے میں اپنی جوانی و اپنی بلوچ قوم کے سروں کی قربانی دی کے ایک آزاد وطن تعمیر کیا ، یہ وطن بہت زیادہ محنت و لہو سے تعمیر ہوا تھا جسے نوری نصیر نے دشمنوں کی بد نظروں سے بچا رکھا تھا اس وطن کو ایک ہی لمحے میں گنوانے میں ہمارے اپنے بلوچ بھائیوں ہی کا ہاتھ تھا جن کی لالچ کی وجہ سے بلوچستان اتنا بکھرا کہ اب یکجا ہونے کا نام بھی نہیں لیتا۔

تاریخ کے بہت ہی بہادر بلوچ فرزند میر چاکر رند نے بھی بلوچ وطن کو بہت زیادہ وسعت دی تھی چاکر رند نے بہت سے علاقے فتح کیے تھے، میر چاکر اعظم اور نوری نصیر خان بلوچ و بلوچستان کے تاریخ کے بہت بڑے نام ہیں جنہوں نے بلوچستان کو اتنی وسعت دی کہ بلوچستان سیستان و ہلمند ، مكران ورخشان ، کراچی و بیلا ، راجن پور تا ڈیرہ غازی خان ، بلوچستان ایک بہت بڑا ملک تھا لیکن انگریز کے شاطر دماغ نے بلوچستان کے جگر کے تین ٹکڑے بنا ڈالے ایک حصہ افغانستان کو دے دیا ، ایک ایران کو ، کچھ حصہ سندھ کو تو کچھ حصہ پنجاب کو دے دیا ، اب بچے کچھے حصہ پہ انگریز خود قابض ہو گیا اب حکومت کرنا آسان تھی بلوچوں پہ لیکن پھر بھی بلوچوں نے انگریزوں کی غلامی قبول نہیں کی اپنے سروں کی قربانیاں دیتے رہے اور اپنے وطن کے لئے لڑتے رہے ، انگریزوں کو بھی بلوچوں کے بہادری کا خوب اندازہ ہوا جب دوسری جنگ عظیم کے وقت بلوچوں نے اپنی فوج نہ دینے کا کہا ، تو انگریز بلوچوں کے سامنے بے بس ہو گئے۔

انگریزوں کے جانے کے بعد بھی بلوچوں نے سکھ کا سانس نہیں لیا آج بھی بلوچ مزاحمت میں ہے ،لیکن بکھرا ہوا ہے، مولا بکھری بلوچ قوم کو یکجا کر دے کوئی مسیحا بھیج دے اب کوئی چاکر و نوری نصیر خان بھیج دے جو ایک بار پھر بلوچ قوم کو ایک لڑی میں پرو دیں_


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں