بلاول ماتمی ماں کے سانولے مور کو تلاشو ۔ محمد خان داؤد

487

بلاول ماتمی ماں کے سانولے مور کو تلاشو

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

وہ سمندر تو لہرولہروں ہوکر خاموش ہو گیا،پر اس سمندر میں تو اب لہریں اُٹھ رہی ہیں
وہ سمندر تو ساحل سے ٹکرا کر خاموش ہو گیا،پر وہ سمندر کس سے ٹکرائے اور کیسے خاموش ہو؟
وہ سمندر تو پہلے موج میں آیا،پھر طوفان میں بدلی ہوا اور پھر ٹہر سا گیا
پر وہ سمندر تو سوتی ماں کو جگا گیا اس کی آنکھوں میں رتجگے دے گیا اور آنسوؤں سے بھر گیا
اس سمندر میں جو گیا سو کھوگیا پر اس سمندر میں جو گریا وہ تیرتا ہی رہے
وہ ماں بھی چاہتی ہے کہ اس کا بچہ جو سمندر کے نیلگوں گہرے پانیوں میں ہو تے ہوئے اس کی آنکھوں اور یادوں میں اٹک کہ رہ گیا ہے ڈوب ہی جائے
پر وہ نہیں ڈوبتا!
یادیں نہیں ڈوبتیں!
یادیں وہ عذاب ہو تی ہیں کہ انہیں گہرے ساحل بھی ڈبونے میں ناکام رہتی ہیں
اور مائیں اس اذیت میں ہو تی ہیں کہ جو ساحلوں میں ڈوب گئے وہ یادوں میں کیوں نہیں ڈوبتے
ہر روز،ہر پہر،آٹھوں ہی پہر
تمام شامیں،تمام صبحیں وہ ڈوبے وجود یادیں بن کر ان آنکھوں اور دلوں میں تیرتی رہتی ہیں
جو آنکھیں اور دل صدا کے لیے تر رہتے ہیں
آنسوؤں سے!

سندھ کی سرکار موج میں ہے
اور کراچی کے سندھ سیکریٹریٹ سے بہت دور ٹھٹہ کی اک بے بس ماں اس بیٹے کو یاد کر رہی ہے جو کیٹی کے بندر میں اُٹھنے والے طوفان کی نظر ہو گیا،ٹھٹھہ کے منتخب نمائیندے اپنے بچوں کے ساتھ شہر کے بارونق بازاروں میں شاپنگ کر رہے ہیں اور جاتی کی اداس ماں کئی دنوں سے سوئی نہیں
ٹھٹھہ کے شیرازی اب فوٹو سیشن کے بعد تھک کر برادریوں کے پنچائیتی فیصلے کر رہے ہیں اور کئی دنوں سے اک ماں اپنے ونجارو جیسے بیٹے کو یاد کر رہی ہے۔وہ ماتم نہیں کر رہی پر ماتم اس پر چھایا ہوا ہے۔وہ ساحل کنارے اپنے پانیوں میں گمشدہ بیٹے کو آواز دے رہی ہے اور سمندر خاموش ہے!
پانی اس کے قدم چوم کر واپس لوٹ جاتا ہے
پر ونجارو نہیں لوٹتا!
پانی اس کی قدم بوسی کرتا ہے
پر ماں کیاس آواز کو وہاں تک نہیں لے جاتا جہاں کسی کُن میں ونجارو گرا اور نہیں لوٹا
پانی اس ماں کے قدموں کو گیلا گیلا کر جا تا ہے پر پانی اس ماں کے ان آنسوؤں کو خشک نہیں کرتا جو اس بیٹے کی یاد میں بہہ رہے ہیں جس بیٹے کو وہ طوفان اپنے ساتھ لے گیا جس طوفان کو آتا دیکھ کر سرکار،انتظامیہ اور محکمامے موسمیات سو رہے تھے پر وہ سکھیاں اور مائیں جاگ رہی تھیں جو اپنے محبوبوں کو گہرے نیلگوں پانی کے سپرد کر رہی تھیں۔ایسی تباہی کے بعد بھی سرکار،انتظامیہ اور محکمائے موسمیات سو رہے ہیں اور وہ محبوبائیں اور مائیں جاگ رہی ہیں جن کی نیدیں بھی گہرے پانیوں کے حوالے ہوئیں!
کیا صرف ونجارو ڈوبے ہیں؟
نہیں مائیں اور محبو بائیں بھی ڈوبی ہیں
ایسی ہی ایک ڈوبتی تیرتی،تیرتی ڈوبتی ماں اپنے ڈوبے بچے کی لاش کے لیے تڑپ رہی ہے اور اس کی اس وقت ایسی حالت ہے جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”ویو وسکارے میں مور مری،تھی کیڈیون دانھون ڈیل کرے!“
پر کیا بس سرکار سو رہی ہے؟وہ پی ایم ڈے اے بھی سو رہی ہے جسے سے سندھ ٹھٹھہ کی ماں بلکل بھی واقف نہیں وہ ماں تو یہ بھی نہیں جانتی کہ یہ پی ڈی ایم اے کیا بلا ہے؟جس پی ایم ڈی اے کا اربوں کا بجٹ ہے پر اس سے سندھ کے جاتی ٹھٹھہ کی اک ماں کا پانیوں میں ڈوبا بچہ نہیں تلاشا جا رہا
کیا اس ماں کو کسی دلا سے سے خوش کیا جا سکتا ہے؟
کیا اس ماں کو وزیر اعلیٰ کی امداد میں دیا ایک لاکھ قرار دے سکتا ہے جس کا بیٹا حجامڑو کریک کی کھائی کی نظر ہوا؟حجامڑو کریک میں آیا بھونچال تو تھم گیا پر ماں کے سینے میں اُٹھنے والا بھونچال کب تھامیں گا کون جانے؟سب ساحل سے گھروں،اپنے ٹھکانوں اور شہروں کو لوٹ رہے ہیں اب تو ایدھی کے رضا کار اور نام نہاد فشرفوک فورک کے لیڈر بھی گھروں کو لوٹ رہے ہیں پر وہ ماں۔اداس آنکھوں۔گیلے نینوں،تیرتے،ڈوبتے دل اور بے چین روح سمیت وہی ٹھہر گئی ہے۔وہ گھر لوٹے تو کیسے اس کا جیون تو اسی سمندر میں ڈوب گیا؟وہ ٹھنڈا وجود لیے کس کے لیے لوٹے؟
ہم سب کچھ ہیں،سیا سی اداکار بھی اور بے ہودہ قلم کار بھی،ایکٹویسٹ بھی اور رضا کار بھی
پر کیا ہم ماں بھی ہیں؟
کیا ہمارے پاس تیرتا،ڈوبتا دل بھی ہے؟
کیا ہمارے پاس منتظر آنکھیں بھی ہیں؟
کیا ہمارے پاس بے قرار،بے چین روح بھی ہے؟
کیا ہم اسے یاد کر رہے ہیں جو نیلگوں پانیوں میں جسم و جاں سمیت ڈوب گیا؟
نہیں ہم ماں نہیں ہیں
ہم تو بس اداکار ہیں
سماجی اداکار!
وزیر اعلیٰ کا ایک لاکھ روپیہ اس ماں کو قرار نہیں دے سکتا جو ماں بستر پر سوتی بھی ہے تو اس گہرا پانی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور وہ اُٹھ بیٹھتی ہے
وہ ماں سیا ست سے واقف نہیں پر اس نے اپنا ووٹ بے نظیر کو دیا ہے
اس لیے کہ بے نظیر مظلوم تھی بلاول آج جا تی کی اک ماں مظلوم ہے
وہ اپنا سب کچھ پانی میں بہا چکی ہے اپنا سب کچھ سمندر کے حوالے کر چکی ہے
بلاول اپنا گھر چھوڑو اور جاؤ اس ماں کے پاس جو حجامڑو کریک کے ساحل پر اپنی جمع پونجی تلاش رہی ہے
اور اس ماں کی جمع پونجی کوئی بحریہ ٹاؤن کا عالی شان بنگلہ نہیں بس ایک سانولہ مور جیسا بیٹا تھا
جو اب پانی کے حوالے ہوئے!
”مندر کی گھنٹیاں
پرو ہت پر ہنستی ہیں
اور اذانیں ماتمی ماں پر
روتی ہیں!“‘


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں