انقلابی کارکن کی ذمہ داریاں
نورا گل
دی بلوچستان پوسٹ
قبضہ گیر ہمیشہ ہمدردانہ سوچ عیاں کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ کہ وہ کالوناٸیزڈ قوموں کو مہذب بناکر ترقی یافتہ کردے گا لیکن اسکے اعمال ہمیشہ اسکے سوچ کے برعکس رہے ہیں۔
وہشت کی صداٶں کو زیر کرکے انقلابی نغموں کی دھوم سے اہل جہاں پر تاریکی اور ظلمتوں کا باب ختم کرنا ممکن ہے۔ ایک انقلابی جس کو اپنے غلامی کا احساس ہو،اپنے تاریخ و حقیقت سے آشنا ہو، فاشسٹ اور سامراجی و استعماری سازشوں کو سمجھ گیا ہو، اب اسکی جدوجہد مرکوز ہو کہ قوم کے سامنے قبضہ گیر کے سازشوں کو عیاں کرتا ہے۔
قابض کے ظلم کو بیان کرنا، اسکے فرسودہ تاریخی نصاب کو رد کرنا،فاشسٹوں کے کردار کے متعلق آگاہی دینا، قابض کے دیۓ ہوۓ غلامی پر آمادہ ہونے والوں کو جذبہ آزادی سے سرشار کرنا یقینا انقلابی کارکن کا فرض ہوتا ہے ۔
اب ماجرہ یہ ہے کہ ایسے عمل کا حصہ بننا جہاں شعور بانٹنا ہو ایسا عمل خوف و جبر سے کم نہیں، یہ بات بھی اپنی جگہ بر حق ہے کہ نظریاتی فکری اور انقلابی کارکن اپنے سرزمین کی عظیم عشق اور غلامی سے بیزار نہ خوف زدہ ہوتا ہے اور نہ کہ قابض کے ظلم کے خوف سے اپنے عمل سے دستبردار ہوتا ہے۔
بقول پیغمبر انقلاب بلوچ آزادی پسند رہنمانواب خیر بخش مری“ ڈرنا بلوچ کی توہین ہے لیکن احتیاط کرنا ہر بلوچ پر فرض ہے۔”ایک انقلابی بے خوف دنیا کی تمام مفاداور لالچ سے پاک ہوتا ہے لیکن اسکی بقا ضروری ہے۔
انقلابی کارکن کا پہلا عمل اپنی اور اپنے ساتھوں کی حفاظت کرنا ہوتا ہے کیونکہ جدوجہد قوم کے درمیان رہ کر کرنا ہوتا ہے ، جدوجہد جو عوام کی آزادی کیلۓ ہے، جدوجہد جو عوام کو اسکے غلامی کا احساس دلانے کیلۓ ہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ عوام سے دور رہ کر انکو انقلاب کا باب پڑھایا جاۓ۔کٸی کارکنان کو ہمیشہ اس بات کا سامنا رہا ہے کہ وہ خود کو غیر محفوظ سمجھ کر عوام سے لاتعلق ہوۓ ہیں جس سی انکی جوجہد محدود رہ گئی۔ انکو سب سے پہلے زمینی حقائق اور عوام کے مزاج کے حساب سے اپنے نظریات کا پرچار کرنا ہوگااور اپنے ہر عمل کے مفید اور منفی پہلو پر غور فکر کرنا ہوگا جس سے انکی بقا زیادہ سے زیادہ قاٸم رہے گی۔
قوم پر مسلط غلامانہ نظام جہاں بنیادی حقوق کا فقدان ہو وہاں اصلاحی سیاست کرنے والے ان مساٸل کو محرومیوں کا نام دے کر عوام کو حقیقی مسائل سے منتشر کرکے انہیں سامراجی و استعماری آٸین کا پاسدار و وفادار بناکر انقلاب کو کمزور کردینگے اس معاملے میں ایک انقلابی کو چاہیے کہ وہ ان مسائل کو غلامی سے جوڑ کر قوم کو حقیقت سے آشنا کریں ۔
انقلاب اور انقلابی کو جس طرح قبضہ گیر سے خطرہ ہوتا ہے اسی طرح فاشسٹ (ہمیشہ طاقتور کا حمایت یافتہ ہوتا ہے) بھی انقلاب اور انقلابیوں کیلۓ خطرہ ہوتا ہے ۔ اس خطرےکے پیش نظر ایک کارکن کو صبر و تحمل سے اپنے کام کو سرانجام دینا ہوگا، انجان لوگوں سے میل جول میں اس بات کا خیال کرنا ہوگا کہ بغیر اعتماد اور پہچان کے اپنے خیالات کا ذکر انقلابی طریقہ کار جدوجہد کے منافی ہے۔ قوم دشمن سامراجی و استعماری آلہ کاروں کے کردار کو محتاط طریقے سے ایکسپوز کریں ۔ سب سے بڑی غلطی جو اکثر انقلابی کارکنان سے سرزد ہوتی ہے وہ قبضہ اور اسکے آلہ کاروں کو ایکسپوز کرنے کیلۓ خود کو ایکسپوز کرتے ہیں جس سے انقلابی کارکن آسانی سے دشمن کا نشانہ بنتا ہے ۔
انقلابی لٹریچر ایک بہت بڑا جز ہوتا ہے قوم کی تعلیم و تربیت کرنے میں کیونکہ لٹریچر عوام کو مائل کرتی ہے کہ وہ حقیقت کو سمجھ سکے ۔ انقلابی لٹریچر ترتیب دینے سے اپنے نظریات کو عوام تک پہنچانے میں مدد ملے گی اور ساتھ ساتھ قومی زبانوں کی ترویج بھی ہوگی ۔ لٹریچر کو ترتیب دینے کیلۓ انقلابی کارکن کو مطالعہ کرنا ہوگا اور اس مطالعہ کیلۓ اپنی تاریخ،ثقافت ،قومی رہنماؤں کے حوالے سے پڑھنا ہوگا۔
ایک آزادی پسند انقلابی کئی بار زمینی حقائق کے پیش نظر اپنی بات کو سمجھانے کیلۓ دوسرے اقوام کا مثال پیش کرتا ہے اور اس پر مسلط سامراج و استعماری قوت کا نام لیۓ بغیر اور یہ طریقہ کار محفوظ بھی ہے کہ آپ سرفیس پر اپنی بقا قاٸم رکھ سکوگے اور جدوجہد آزادی کیلۓ اپنے سرگرمیوں کو زیادہ سے زیادہ منظم طریقے سے کرسکوگے ۔
انقلابی کارکن کوشش کرتا ہے کہ وہ غلام قوم کو سوچنے پر مجبور کرےتاکہ وہ سامراج کے ظلم کو اسکے قبضہ گیری نیت کو پہچان سکے اور جس دن غلام سوچنے لگا تو اسکے اردگرد موجود ظلم اور نا انصافیاں اسے خود نظر آٸینگے۔
آجوئی کے ایسے کاروان کو کوئی قوت روک نہیں سکتی جہاں آجوئی کیلۓ لڑنے والے بلوچ سرمچار ہوں اور آجوئی کا درس دینے والے بلوچ طلبا ہوں ۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں