ہمیں کہاں جانا ہے؟
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گوادر میں جاری حق دو تحریک ایک مہینے سے چل رہی ہے. اس دوران تحریک حق دو گوادر سے حق دو بلوچستان تحریک میں تبدیلہوگئی ہے. لیکن ابھی تک عوام اس کنفیوژن کا شکار ہے آیا یہ تحریک جماعت اسلامی (بی ٹیم پاکستان آرمی کی سرپرستی میں چلرہی ہے یا عوامی تحریک ہے؟
جماعت اسلامی کی پر تشدد تاریخ سے ہر باشعور فرد واقف ہے. بنگلہ دیش میں البدر اور الشمس کی تشکیل بنگالی عوام کا قتل عام،تعلیمی اداروں میں ڈنڈہ بردار فورس کی تشکیل اور مظلوم اقوام کے طالب علموں پر حملے اسی بدمعاش جماعت کی کارستانی ہے. کشمیر کے نام پر یوم یکجہتی کشمیر منانے والے جماعت اسلامی نے کشمیر کاز کو نقصان پہنچایا اور اب گوادر دھرنے کو اپنے نامسے منسوب کرکے بلوچستان کی تحریک آزادی کو ریاستی ایماء پر کاؤنٹر کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے.
بلوچستان کی موجودہ تحریک ستر سالوں پر محیط ہے، اس ستر سالہ پر آشوب دور میں بلوچوں نے ہر طرح کی قربانی دیکر اپنےتحریک کو زندہ و جاوداں رکھا. ہر دور میں بلوچ پاکستان کے لئے ایک درد سر رہا کیونکہ بلوچ جانتے ہیں کہ ہماری آزادی کو سلبکرنے میں پاکستان کے تمام ادارے ایک صفحے پر متحد ہیں۔
گذشتہ روز جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق صاحب گوادر دھرنے میں تشریف لایا، جن کی تقاریر سے واضح تھا کہ موصوفبلوچ قومی جہد کو متنازعہ بنانے کے مقاصد سے جلوہ گر ہوئے اور گوادر تحریک کے سادہ مطالبات کو فرط جذبات میں انڈیا و کشمیرکے معاملے میں تقریر کر ڈالی جو ان کی بدنیتی کا اظہار ہے. مولانا سراج الحق کے بعد بلوچ متحدہ محاذ کے سربراہ بزرگ بلوچیوسف مستی خان کی تقریر نے گوادر دھرنے میں شرکا ء میں سراج الحق کی تقریر سے چھائی مایوسی کا بہت حد تک مداوا کیا. استقریر کی قیمت مستی خان صاحب کی گرفتاری اور ایف آئی آر پر منتج ہوئی.
بارہ دسمبر بروز اتوار وزیر اعظم قابض پاکستان عمران خان نے ماہی گیری کے مسائل کے نوٹس کا ٹویٹ کرکے یہ حق جتانے کیکوشش کی کہ دھرنے کا نوٹس لیا گیا ہے اور نوٹس صرف ایک مسئلہ پر لیا گیا ہے جس پر کتنا عملدرآمد ہوتا ہے یہ وقت ہی بتائے گا. بارہ دسمبر کو کاز کشمیر کو نقصان دینے والے مذہبی جماعت نے یوم یکجہتی بلوچستان منانے کا اعلان کیا اور پاکستان کے مختلفشہروں میں پروگرام منعقد کرکے پاکستانی جھنڈوں کے سائے تلے گمراہ کن نعروں کے ذریعے بلوچ تحریک کو متنازعہ بنانے کیکوشش کی گئی.
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بلوچستان میں ستر سالوں سے آزادی کی تحریک چل رہی ہے. بلوچ نہ کل پاکستان کا حصہتھے اور نہ آج خود کو پاکستان کا حصہ تصور کرتے ہیں.
مولانا ہدایت الرحمن صاحب کی سربراہی اور ان کے کردار واضح ہے کہ وہ ایک بحثیت بلوچ گوادر تحریک کی رہنمائی کا فریضہ انجامدے رہے ہیں اور ان کا واضح مقصد بلوچستان میں پاکستان کی طرف سے پھیلائی گئی سراسیمگی اور خوف کا خاتمہ کرکے اپنےمطلوبہ حقوق حاصل کرنا ہے. لیکن جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی مداخلت اس تحریک کو متنازعہ بنانے کی کوششہے. اس سلسلے میں ہدایت الرحمن صاحب اس کی وضاحت کریں کہ جماعت اسلامی کا اس تحریک سے کوئی واسطہ نہیں بلکہ یہتحریک خالص نیشنلزم کے تحت جاری ہے اور مستقبل میں جاری رہیں گی اور دوسری بات اس تحریک کو جلد از جلد تنظیمی شکلمیں متعارف کروایا جائے تاکہ کوئی بھی پاکستانی پارٹی اس تحریک کو ہائی جیک کرنے کی کوشش نہ کریں اور بلوچ عوام موجودہتحریک اور جماعت اسلامی جیسے مظلوم کش جماعت کے بارے میں سوال کریں اور تحریک کے رہنماؤں سے سوال کریں کہ ہماری منزلکیا ہے اور ہم کہاں جارہے ہیں.