ہدایت الرحمن پل صراط پہ نہ چلو
تحریر: اسد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ہدایت الرحمن بلوچ کم وقت میں اپنی راست گوئی اور عوامی ایشوز پر بہادرانہ موقف کے سبب بہت مقبولیت پاچکے ہیں، ایک ایسے مقبول عوامی لیڈر کو طویل سیاسی جدوجہد درکار ہوتی ہے تب جاکر اسے نام اور مقام مل پاتا ہے۔ گوادر سے مگر ابھرنے والی حق دو تحریک کے بانی ھدایت الرحمن بلوچ کے ساتھ عوامی مقبولیت کا سفر اتنا طویل نہیں ہے۔ اس کا سبب زمین سے وابستہ ان اہم ایشوز پر بے باک موقف اپنانے کے ساتھ ساتھ اپنے موقف کی پختگی کو عملی سانچے میں ڈھالنا بھی ہے، ھدایت الرحمن کون ہے؟ ایک مولوی لیکن یہ کوئی مطلب نہیں رکھتا پاپولرٹی اس کے موقف کو ملی ہے جو بد قسمتی سے کسی اور کے ہاں موجودہ وقت میں دکھائی نہیں دیتا چاہے ایک بڑا قوم پرست کیوں نہ ہو۔
ھدایت الرحمن زمین سے انسیت، عوام کو درپیش تذلیل آمیز رویے، معاشی مشکلات اور وطن سے جڑے چند اہم نوعیت کے مطالبات کے سبب اس وقت بلوچستان ہی نہیں پورے پاکستان میں بے حد مقبول ہوچکے ہیں، ان کا سیاسی تعلق گوکہ ایک نیم انتہا پسند مذہبی جماعت سے ہے جن کی سیاست ہمیشہ جہاد و قتال کے گرد کھومتی رہی ہے، جماعت اسلامی پاکستان میں افرادی قوت کے لحاظ سے ایک بڑی جماعت ہوسکتی ہے مگر اقتدار کے معاملے میں اسے کبھی پسند نہیں کیا جاسکا۔ اس جماعت نے بلوچستان کے سخت گیر قوم پرست سیاسی منظرنامہ میں گنجائش سے بھی کم جگہ پائی چاہے بلوچ بیلٹ ہو یا پشتون اس جماعت کو سیاسی اسپیس کا ہمیشہ سامنا رہا۔ البتہ مولانا عبدالحق بلوچ جیسی جداگانہ طبعیت کے مالک شخصیت نے جماعتی سیاست سے ہٹ کر زاتی حیثیت میں ایک نمایاں نام پایا۔
ھدایت الرحمن بلوچ جس کے نام پر مولانا کا اضافہ بھی ہے ایک دوسری ایسی شخصیت بن رہے ہیں جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے مگر باوجود اس وابستگی کے وطن کو درپیش مشکل حالات میں اپنی دو ٹوک موقف کے سبب بہت مقبول ہیں۔
مگر ھدایت الرحمن جس قدر مقبول ہیں اب یہ محسوس ہورہا ہے کہ جماعت اسلامی اسی قدر بلکہ اور زیادہ اس مقبولیت کو کیش کرانے کی کوشش میں ہے۔ جماعت اسلامی اچھی طرح سمجھتی ہے کہ وہ بلوچستان کی قوم پرستانہ سیاسی سماج میں کبھی وہ گراف نہیں پاسکتا جو ان کی خواہش رہی یا اب کوشش ہے۔ اسے یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ ھدایت الرحمن کی پاپولرٹی کا سبب وہ موقف ہے جو کسی بھی سخت گیر قوم پرست لیڈر کا ہوسکتا ہے، ان کے پیش کیے گئے مطالبات زمین سے جڑے وہ مسائل یا وطن باسیوں کو درپیش تزلیل آمیز رویے ہیں جنہیں بطور ایک وطن باسی روز سامنا کرنا پڑتا ہے، ھدایت بلوچ جتنے مولوی ہوں ان کے اندر شدت سے ایک نمک حلال بلوچ فرزند قابل فخر صورت میں زندہ ہے۔
جماعت اسلامی سے بالکل متضاد اس کے قوم پرستانہ موقف کو دراصل پزیرائی حاصل ہے جسے ہر بلوچ سمجھ سکتا ہے، اسے خود ھدایت الرحمن بلوچ بھی بہتر طور سمجھ سکتے ہیں، جیسا سراج الحق چاہتے ہیں یا ان کی کوشش ہے کہ وہ اس مضبوط عوامی تحریک کو اب جماعت اسلامی کی جانب موڑ سکتے ہیں محض ایک خیال ہے اور خیال ہی رہے گا کیونکہ اگر ھدایت الرحمن نے بھی ایسا بننے کی کوشش کی تو جس مختصر مدت اس نے ایک مقام بنایا وہ اپنا پایا گیا مقام اس سے کم وقت میں کھو سکتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے سربراہ نے گوادر آکر جو باتیں کیں یہ اس مجمع کی قطعاً آروز یا خواہش نہیں تھیں جو اکیس دنوں سے ھدایت الرحمن بلوچ کے ساتھ دھرنا دیے بیٹھا ہے۔ سراج الحق کی آمد اور ان کی باتوں کا ردعمل ھدایت الرحمن بلوچ کی تحریک پر نگاہ رکھنے والے بلوچ و پختون سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کے مختلف سوشل میڈیائی اکاؤنٹس پر دیکھا جاسکتا ہے۔
جماعت اسلامی کے لیے جاننا ضروری ہے کہ اس زمین سے نسبت رکھے قوم پرستوں نے جنہیں نام نہاد بھی اگر کہا جائے ایک طویل سیاسی مزاحمت کے زریعے اپنے حقوق اور استحصال پر لوگوں کو سیاسی شعور دیا ہے۔ سخت گیر موقف کے حامل بلند پایہ لیڈر غلام محمد شہید نے جان دے کر یا اس سے کم درجے کے قوم پرستوں نے بھی کافی قربانیاں دی ہیں سیاسی تاریخ لکھتے وقت انہیں غارت نہیں کیا جاسکتا، جماعت اسلامی صرف ایک دن کے لیے گوادر آکر اگر قلع فتح کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے تو اس پہ ممانعت نہیں مگر سراج الحق کو سمجھنا ہوگا کہ یہی قوم پرست جو اسٹیبلشمنٹ نواز ہیں یا مخالف، چاہے بلوچ ان پر وقتاً فوقتاً الزامات لگاتے ہیں بھی، مگر وہ 75 سال نہیں تو 50 سالوں سے بحرحال اپنی زمین پر اپنے عوام کے درمیان رہ کر سیاسی شعور پھیلا رہے ہیں انہیں صرف ایک دن کی ہمدردی سے اور الزام لگانے سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
سو جماعت اسلامی کو ایک پاپولر عوامی تحریک جس کی بنیاد ہی قوم پرستی پر ہے کو کیش کرنے کا خواب دیکھنا بند کرنا چاہیے اور ھدایت الرحمن کے لیے بھی سمجھنے کی بات ہے کہ عوام اسے اب ایک نیم شدت پسند مذہبی جماعت کا لیڈر نہیں اپنے دل کی آواز سمجھ رہے ہیں اگر یہ دل جماعت اسلامی کی پیار سے توڑا گیا تو نقصان صرف ھدایت الرحمن کا ہی ہوگا کیونکہ بلوچ اور کتنے بڑے نقصان پہ غم کھائے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں