گوادر دھرنا جاری، کوسٹل ہائی وے سمیت ضلع بھر میں کاروباری مراکز مکمل بند

848

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں اپنے مطالبات کے حق میں “گوادر کو حق دو تحریک” کا دھرنا آج اٹھارویں روز جاری ہے۔  مطالبات کے حق میں آج مکران کوسٹل ہائی وے پر شہریوں کی بڑی تعداد نے احتجاج کرتے ہوئے ہرقسم کی ٹریفک کی روانی کو معطل کیا ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق جمعرات کی صبح مکران کوسٹل ہائی وے کو اورماڑہ زیروپوائنٹ، پسنی زیرو پوائنٹ اور سربندن کراس پر بند کیا گیا ہے، جسکی وجہ سے ضلع گوادر کا کراچی سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔

احتجاج کے باعث ہزاروں مسافر گاڑیاں اپنے منزل تک پہنچ نہیں سکے۔ دوسری جانب انجمن تاجران کی جانب سے گوادر، پسنی، جیونی اور اورماڑہ میں تمام کاروباری مراکز مکمل طور پر بند ہیں۔

شٹرڈاؤن ہڑتال کی وجہ سے مالیاتی ادارے بھی بند ہیں اور سرکاری دفاتر میں ملازمین کی حاضری کم رہی جبکہ گذشتہ شب دھرنا منتظمین سے حکومتی وفد کا مزکرات کا پانچواں دور بھی ناکام رہا۔

گذشتہ رات صوبائی وزیر ظہور بلیدی، لالہ رشید نے دھرنے کے مقام پر آکر مولوی ہدایت الرحمان بلوچ سے ملاقات کی۔ طویل گفت و شنید کے بعد مولوی ہدایت الرحمان بلوچ نے دھرنا شرکا کو مزاکرات سے متعلق آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دو مطالبات تسلیم کیے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں آج حکومتی وفد نے یقین دلایا ہے کہ کوسٹ گارڈ کے زیر حراست کشتیوں اور کسٹم کے زیر حراست گاڑیاں مالکان کے حوالے کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ان مطالبات پر عمل درآمد کرانے اور سرحدی کاروبار کی بحالی تک دھرنا جاری رہے گا۔

ہدایت الرحمان بلوچ نے کہا کہ رات کو باہمی مشاورت سے یہ فیصلہ ہوا کہ دھرنا جاری رہے گا اور اب مزاکرات صرف
وزیر اعلیٰ بلوچستان، چیف سیکریٹری بلوچستان اور کورکمانڈر بلوچستان سے ہی ہونگے۔

مولوی ہدایت الرحمان بلوچ نے کہا کہ حکومتی وفد نے سرحدی تجارت کی بحالی کے لئے ایک ہفتے کا وقت مانگا ہے اور اس دھرنے کے تمام بڑے مطالبات پر عملدرآمد تک ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔

دھرنے میں شریک شہریوں کا کہنا ہے کہ دھرنا منتظمین کا فیصلہ ہمیں قبول ہے اور احتجاج جاری رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت بے بس ہے گذشتہ دنوں وزیر اعلیٰ بلوچستان نے ایک تقریب میں سرحدی کاروبار کھولنے کا باقاعدہ اعلان کیا لیکن ایف سی نے وزیر اعلیٰ کی حکم کو تسلیم نہیں کیا۔

شہریوں نے کہا کہ پانچ مرتبہ صوبائی وزراء یہاں مزاکرات کے لیے آئے ہیں لیکن وعدوں کے علاوہ عملی طور پر وہ کچھ نہیں کرسکے ہیں۔