گوادر حق دو تحریک، سراج الحق کا بیانیہ اور بلوچ عوام
تحریر: ڈاکٹر عزیز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ کئی سالوں سے گوادر میں لوگ پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں ان کا روزگار و معاشی سرگرمی سمندر میں چھوٹے پیمانے پر لانچوں اور چھوٹے کشتیوں سے مچھلی شکار کرنا اور مارکیٹ میں بیچنا ہے لیکن کئی سالوں سے غیر قانونی جمع چائنیز ٹرالرنگ مافیا نے ان کو دو وقت کی روٹی کیلئے محتاج بنا رکھا ہے جو لاوا چل چل کر خواتین بچوں سے لیکر بزرگ اور جوانوں تک سب کے چیخوں کا سہارا لیکر پھوٹ پڑا جو آج ایک متحرک حق دو تحریک کا شکل اختیار کر چکا ہے۔
اسی طرح ان کا معاشی حقوق کو ٹرالنگ بزور طاقت چھین لیتے ہیں اسی طرح ان کے سیاسی نظرئے اور آواز کو بھی جماعت اسلامی اور سراج الحق نے سیاسی ٹرالنگ سے چھیننے کی ایک ناکام کوشش کرنا شروع کیا ہے۔
لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ تحریک کا دارومدار عوام سے ہے اور عوام سے سیاسی جڑت ان کے مزاج اور نفسیات سے لیکر ان کے ساتھ لیکر چلنا ہے صرف اپنے پارٹی صدر کو بلاکر جماعت کا لیبل لگانے سے وہ زخم نہیں مٙل سکتے جو بلوچستان میں سینکڑوں لاشوں کا موجب بنا وہ لیبل کبھی اس احساس کو دفن نہیں کرسکتا جو حمل و جئیند کی مزاحمتی عٙلم کو پرتگیزیوں سے لیکر موجودہ صداووں تک حاکموں سے ٹکرانے کو وجود دیتے آرہے ہیں۔
مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کی عوامی جہد سے جڑت میں کردار سے انکار ممکن نہیں یہ بلوچ کی تاریخی شکلیں ہیں چاہے وہ کسی بھی مذہبی ، سیاسی یا سماجی یا ادبی سرخیل کیوں نہ ہو ان کی زمین کی محبت اور قوم کے احساس کو سینے میں دفن کرنا وطیرہ رہا ہے۔
چاہے وہ جماعت اسلامی کے نائب امیر مولانا عبدالحق بلوچ کیوں نہ ہو جو کہ بلوچ سیاسی جڑت پر بیان بازی سے مرکز سے شو کاز نوٹ تک پاچکا تھا لیکن قومی احساس کے دئیے کو آخری دم تک جلاتا رہا حتیٰ کہ بی ایس او جیسے قوم دوست طلباء تنظیموں کی سرکلوں اور سیمیناروں میں محو کلام ہوتے رہے ہیں۔
یا پھر جے یو آِئی کے خالد ولید سیفی کا قلم کیوں نہ ہو کسی مقام اور حد پہ اس سے بلوچیت چھڑکتا ہے۔
یہ ایک تسلسل ہے یا ادباء ہو شعراء ہو یا دیگر سماجی کارکن کسی نہ کسی مقام سے قومی احساس اور قومی جڑت ان کا وطیرہ رہا ہے لیکن یہ عوام کی ایک احساس ہے وہ احساس نہ میرا نہ ہدایت کا نہ کسی اور کا محتاج ہے عوامی سیلاب اپنا رستہ خود بنا لیتا ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہوتا قیادت ہو سر آنکھوں پہ کوئی پیچھے ہٹے بھی عوامی تحریک اپنی منزل سمندر کو پالیتا ہے۔
یہ غالبا 80 کی دہائی کی بات ہے جب سردار عطاءللہ مینگل نے اشارتاً کہا کہ ایک دن آئیگا کہ امریکہ اور چین جیسی بڑی طاقتیں گوادر کے نام پر کُشتی کرینگے اس وقت لوگوں نے اس بات پر ہنسنا شروع کیا کہ گوادر میں رکھا کیا ہے ؟ لیکن آج سردار صاحب کی بات کسی حد تک عالمی مفادات کو گوادر کے ساحل کے لہروں کی سپرد کررہا ہے۔
گوادر کا عوام نہ کہ بلوچستان سے جدا ہے نہ کہ بلوچ قومی احساس سے یہ صدیوں کا قافلہ ہے کبھی رک کے کبھی دوڑ کے چلا ہے لیکن نیشنلزم کی اس چھتری نے قوم کو ڈیرہ جات سے لیکر کوہ البرز تک اکھٹا کرتا آرہا ہے ہر کردار کی اپنی اہمیت ہے چاہے سردار اختر جان مینگل کی لانگ مارچ کی گرفتاریوں میں تبدیلی ہو یا بی این پی کی سیاسی موقف ہو گوادر ازل سے سرفہرست رہا ہے۔
سراج الحق کے بیانات اور خیالات سے اس کے ذاتی ہوسکتے ہیں لیکن گوادر مظلوم و محکوم بلوچوں کا ہے پر اثر بات وہی ہے جو عوام سے اٹھے نہ کہ سینکڑوں میل دور سے دورہ کرکے اپنے خیالات کو تھوپنے سے۔
ہر عمل کا ایک رد عمل ہے یہ وہ رد عمل ہے جب ہزاروں سالوں کی نسلوں کو سمندر میں اترنے سے پہلے غیر مقامیوں سے اجازت لینا پڑے ، ہر چوراہے پر عزت نفس کی تزلیل ہو کہاں جارہے ہو پوچھا جائے اور وہاں سینکڑوں نسلوں کی قبرستان بھی ہو اور روزگار اور سرمایہ دوسروں کی مفادات کیلئے ہو اور مقامی بلوچ بڑے گاڑیوں کی دھول سے منہ صاف کرتا رہے تو ظاہر ہے یہ ترقی کم اور قومی حقوق کی غصب ذیادہ ہیں ____
امید ہے عوامی جہد ہر وقت سر خرو رہے___
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں