بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں بدھ کے روز وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے لاپتہ محمد عامر ولد محمد اکبر کی بہن نازیہ نے کہا کہ میرے بھائی عامر ولد محمد اکبر کو رواں سال 23 نومبر کی رات بلوچستان کے ضلع لسبیلہ گڈانی پٹرول پمپ تحصیل حب سے پولیس اہلکاروں نے گرفتاری کے بعد سادہ لباس میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے حوالے کیا-
انہوں نے کہا کہ میرے بھائی کو حراست میں لینے کے بعد تب سے کے آج تک جبری لاپتہ رکھا گیا ہے اور ہمیں اپنے بھائی کے بار میں کوئی معلومات نہیں دی جا رہی۔
انہوں نے کہا کہ اگر میرا بھائی مجرم ہے تو اسے پولیس والوں نے بغیر کسی وارنٹ کے کیوں گرفتار کیا؟‘
نازیہ اکبر نے اپنے پریس کانفرنس میں مزید کہا کہ ضلع آواران کی مخدوش اور جنگی صورتحال اور گھروں کو جلانے کے باعث ہم سن 2015 کو نقل مکانی کرکے حب چوکی منتقل ہوئے تاکہ یہاں تعلیم اور روزگار کے لیے آسانی ہو لیکن یہاں بھی ہمارے بھائی کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا۔آخر میرے بھائی سے ایسا کون سا جرم سرزد ہوا کہ اسے خفیہ اداروں کے اہلکار اٹھا کر لے گئے۔اگر میرا بھائی مجرم ہے تو اسے عدالت میں پیش کیوں نہیں کیا جاتا؟
انھوں نے کہا میرے بھائی کی جبری گمشدگی صرف ان کی جبری گمشدگی نہیں بلکہ ہمارے خاندان کا معاشی قتل ہے۔کیونکہ میرا بھائی بیماری کی حالت میں بھی معاشی تنگدستی اور معاشی مجبوری کی وجہ سے محنت مزدوری کرنے پر مجبور تھا لیکن اسے اغوا کرکے ہمیں معاشی، جسمانی اور ذہنی حوالے سے اضطراب کا شکار بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ میرا لاپتہ بھائی محمد عامر ہڈیوں کی ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہے ۔ٹی بی مریضوں کو مرض کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اپنی دوائیاں ایک خاص مدت تک بلا ناغہ لینی ہوتی ہیں اگر اس دوران مریض ایک دن کا بھی وقفہ کرئے تو اسے دوبارہ ابتدا سے کورس شروع کرنا پڑتا ہے۔اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو ٹی بی جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
انہوں نے اپنے بھائی کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ کسی جرم میں ملوث ہیں تو انہیں قانونی طریقے سے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے –