کریمہ پتھریلے دیس کی خوشبو ہے
تحریر: محمد خان داؤ
دی بلوچستان پوسٹ
غلام دیس میں سلام نہیں ہو تے
اور آزاد دیس میں غلام نہیں ہو تے
محبت کے سلاموں،پیاموں اور غلام دیس کا قیام ایک جگہ نہیں ہو سکتا!
جب وہ دیس کی دھرتی پہ ہوا کرتی تھی تو دیس خوشبو سے بھر جاتا تھا
اب جب وہ دیس کی دھرتی پر نہیں تو پورا دیس نہیں،
اگر ایسا ہیں تو کیوں صبح شام اس قبر پر پنکھ آتے ہیں جہاں غلام دیس کے آزاد شہری سو رہے ہیں
بس غموں سے پرے،سب فکروں سے آزاد
پر اب بھی اس کی چولی کے دامن میں آزادی کا خواب جاگ رہا ہے اور وہ سو رہی ہے
اس کے آس پاس آزادی کے سپنے اور خواب جاگ رہے ہیں
اس وقت اس کے آس پاس آزادی کے خواب اور سپنوں کو جاگنا ہی چاہیے کیونکہ جب وہ جاگا کرتی تھی تو تمام آزادی کے خواب اور سپنے سویا کرتے تھے،اور وہ کھلی اور جاگتی آنکھوں سے آزادی کے خواب دیکھا کرتی تھی،اب تو وہ دھرتی میں سو چکی ایسے جس کے لیے بھٹائی نے کہا تھا کہ
”کیا عجب ہے
جو دھرتی میرے پیروں کے نیچے ہے
وہ دھرتی میری محبوب کے اوپر ہے!“
دھرتی کی محبوب ترین لیڈر خوشبو بھری مٹی بن کر دھرتی میں سما گئی
اور دھرتی آنسوؤں سے بھر گئی!
دھرتی کے آنسو آکاش پر اُڑتے پنچھی رُک کر پیتے ہیں اپنی پیاس بھجاتے ہیں اور آگے بڑھ جا تے ہیں،پنچھیوں کی آنکھیں اداس اور چونچ خوشبو سے بھر جا تی ہے اور وہ آپس میں کہتے ہیں کہ غلام دیس کے آنسوؤں میں خوشبو کیوں ہے؟تو خود ہی جواب دیتے ہیں کہ جب دھرتی شہیدوں کے قبروں سے بھر جا ئے اور دھرتی میں شہید دفنائے جائیں تو پتھر بھی مہک اُٹھتے ہیں اور وہ اُڑ جا تے ہیں
بانک کریمہ کی قبر بھی خوشبو سے مہک رہی ہے
وہ غلام دھرتی کی آزادی باسی تھی
اور اب وہ غلام دھرتی کی آزاد شہید ہے
مرتا کون ہے اور زندہ کون رہ جاتا ہے؟
یہ کوئی آج کا سوال نہیں یہ دھرتی،کرموں،دھرموں جتنا پرانا سوال ہے
صوفیوں نے اس سوال کے جواب میں عمریں تیاگ دیں پھر بھی تشنہ لب ہی رہے تو انہیں بھی لکھنا پڑا
”بُلیا!اساں مرنا ناھیں
گور پیا کوئی ہور“
اور سپنے،خوابوں اور خوشبو کو موت کیسے آ سکتی ہے؟
وہ پتھریلے دیس کی خوشبو بھی تھی،غلام دیس کا آزاد سپنا بھی تھی، روتی دھرتی کا آزاد خواب تھی۔
تو ایسی خوشبو،سپنا اور خواب کو موت ہیں آ سکتی،وہ ہمیشہ ہمیشہ دھرتی میں ضم ہو گئی ہے، وہ آنسو بن کر دھرتی میں ٹہر گئی ہے۔ایسا آنسو جس سے دھرتی کا دامن ہمیشہ گیلا رہے گا اور اس گیلی مٹی سے بچے خوشبو بھرے کھلونے بناتے رہیں گے،جب ماؤں کو محبت میں حمل نہیں ٹھہرے گا تو وہ مائیں اس دیس کی وہ مٹی چکھیں گی جہاں خوشبو خواب بن کر دفن ہے اور مائیں حاملہ ہو جائیں گے
کریمہ!اُمید ہے
کریمہ!غلام دیس کا آزاد سپنا ہے
کریمہ!جاگتی آنکھوں کا سنہرا خواب ہے
کریمہ!کونج ہے آکاش کی وسعتوں میں اُڑتی کونج
کریمہ!گونج ہے،سڈ ہے،پڑاڈو ہے
ایسی گونج جس گونج کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”گونج بہ کائی کونج پریان ء جی!“
کریمہ!لطیف کا رہ جانے والا سُر ہے جسے لطیف پھر سے لکھے گا
کریمہ!جوگیوں کا سفر ہے
کریمہ!صوفیوں کا صبر ہے!
کریمہ!سرمچاروں کا نعرہِ آزادی ہے
کریمہ!سُرخ سویرہ ہے
کریمہ!دھرتی کا ہر نیا دن ہے
غلام دیس میں ہمیشہ آزاد روحیں پیدا ہو تی ہیں
کریمہ!غلام دیس کی آزاد روح ہے
کریمہ!عشق ہے
دھرتی سے
وفا سے
اور مٹی سے
کریمہ خوشبو ہے
پتھریلی دھرتی کی
آزادی کی شہراؤں کی
اور چاند پہ سے ملاقات کرتے سرمچاروں کی
تو ایسی خوشبو کو موت کیسے آسکتی ہے؟وہ تو دھرتی میں پیوست ہی اس لیے ہوئی ہے کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ رہ جائے ٹھہر جائے کریمہ دھرتی اور دلوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہ گئی ہے ٹھہر گئی ہے!
روتے نین اسے سلام کر رہے ہیں۔بھیگے گال اسے سلام کر رہے ہیں اداس دل اسے سلام کر رہے ہیں اور جب غلام دیس آزاد ہوگا تو سب سے پہلے کریمہ شہزادی کو سلام کریگا
چاند دھرتی کے جس کونے سے طلوع ہو وہ رات بھر چل کر اس قبر پر ٹھہر جاتا ہے
جہاں خوشبو مدفون ہے
اور ستا رے پو ری رات جاگ کر اس کے گیت گا تے ہیں
ہوائیں اس خوشبو کو دھرتی کے آخری کناروں تک لی جا تی ہیں
اور بارش غم اس خوشبو والی قبر کو گیلی کر جا تی ہیں
سورج اس قبر کو ہر روز دو سلام پیش کرتا ہے
ایک دھرتی پر نمودار ہوتے وقت
اور ایک دھرتی میں پیوست ہوتے وقت!
اور اُوس اس قبر پر ایسے برستی ہے جیسے محبت کا جنم ہو رہا ہے
کریمہ!آزادی کی خوشبو ہے اور اس سے دیس کی پتھریلی زمیں،پہاڑ اور پتھر بھر گئے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں