بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں بلوچ وومن فورم کے زیراہتمام بی ایس او آزاد کے سابق چیئرپرسن کریمہ بلوچ کی پہلی برسی کے موقع پر پریس کلب میں سیمینار منعقد کیا گیا۔
کوئٹہ پریس کلب میں منعقد ہونے والے سیمینار میں بلوچ اور پشتون رہنماوں سمیت مختلف مکاتب فکر کے افراد نے شرکت کی۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ دانشور دین محمد بزدار نے کہا کہ بلوچستان کو محکوم رکھ کر اس کے وسائل اور معدنیات کی لوٹ کھسوٹ کی گئی ہے، بلوچ وطن کو ایک اکائی کے طور تسلیم نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے قومی محکومیت نے جنم لیا۔
انہوں نے کہا کہ حاکم قوت نے اپنی لوٹ مار کے خلاف آواز اٹھانے پر طاقت کا استعمال کیا اور ایک خوف کی فضا پیدا کی بلوچ جدوجہد اور بانک کریمہ نے بلوچ ازہان پر خوف و ڈر کا خاتمہ کیا، کریمہ بلوچ نے بلوچ عورت کو سیاست میں متحرک کردیا کیونکہ عورت کی جدوجہد کے بغیر سیاست کامیاب نہیں ہوسکتی، کریمہ بلوچ کے والدین سلام کے لائق ہیں جنہوں نے بلوچ قوم کو کریمہ جیسی بیٹی عطا کی۔
انہوں نے کہا کہ کریمہ بلوچ نے جدوجہد اور قربانی کی بدولت سرزمین کا حق ادا کیا، ان کا مشن اور ان کی منزل قومی حقوق کا حصول یا انصاف رسائی تھا، انہوں نے کہا کہ حاکموں نے 1948 سے لے کر آج تک بلوچ وطن کو حقوق نہیں دیے۔ بلوچ وطن پاکستان کا آدھا حصہ ہے لیکن حاکم طبقہ بلوچستان کو حقوق دینے کو تیار نہیں ہے، بلوچستان پر حکمرانی بھی شروع دن سے آقا کی مرضی منشا کے مطابق ہوتی ہے تمام عرصے میں صرف دو مرتبہ بلوچوں کی حقیقی حکمرانی قائم کی گئی مگر ان دونوں کا عرصہ زیادہ سے زیادہ تین سال تھا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ اس خطے کے دیگر اقوام سے زیادہ سے باشعور ہے، نئی گریٹ گیم میں بلا شبہ بلوچ اپنی شناخت اور سرزمین کا تحفظ کرے گی۔
سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے طالب علم رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ بلوچ سماج کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں کریمہ بلوچ نے دور سے روشنی دیکھی اور اس کے لیے لڑتی رہی، اس لڑائی میں ان کا وجود ٹورنٹو کے ندی میں ختم کردیا گیا مگر ان کی آواز ٹورنٹو سے لے کر گوادر تک بلند ہے، کریمہ صرف ایک کردار نہیں ہے بلکہ ان کا کردار مختلف حصوں میں بٹا ہوا ہے وہ ایک باغی عورت تھی، جس نے سرزمین اور قومی شناخت کی خاطر جدوجہد کی، حاکم سوچ رہا یے کہ تشدد سے بلوچ جدوجہد کو روک دے گا مگر اسی جدوجہد کے لیے کریمہ نے زندگی دی-
انہوں نے کہاکہ ترقی نسواں کے لیے بہت سے ادارے کام کررہے ہیں ان کا منشور ہے کہ جدوجہد کے بغیر عورت زندہ نہیں رہتی، عورت اپنی کہانی خود لکھتی ہے دنیا کا ہر فرد ہر قوم اپنی کہانی خود لکھنا چاہتی ہے وہ اپنی کہانی کسی دوسرے کے ذریعے لکھوانے کی اجازت نہیں دیتی، کریمہ ایک ایسی جہد کا حصہ بنی جس کا حصہ بننا شاید مردانہ سماج کے اکثریتی مردوں کے بس کی بات نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس قوم نے کریمہ کی جدوجہد کو سلام دیتے ہوئے اپنی ماں کا درجہ دیا۔ باغی ماں نالائق اور نااہل نہیں باغی قومیں پیدا کرتی ہیں اور باغی قومیں کبھی سمجھوتہ نہیں کرتی ہیں، کریمہ بلوچ جدوجہد کی نئی تاریخ ہے ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم کریمہ کے عہد میں زندہ ہیں، یہ شناخت کی جنگ ہے اسے شہداء نے آگے بڑھایا ہے یہ جنگ کبھی ختم نہیں ہوسکتی، شہید محراب خان نے انگریز سے شناخت کی جنگ لڑی اور کریمہ نے اسی کا تسلسل برقرار رکھا، کوئی لفظ کوئی جملہ کوئی نظم کریمہ کو بیان نہیں کرسکتی، انقلابی لوگ زندگی سے محبت کرتے ہیں یہ جدوجہد بھی اسی زندگی کے لیے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر رحیم مہر نے کریمہ بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ بانک کریمہ بلوچ صرف ایک سیاسی لیڈر نہیں تھی بلکہ ایک سیاسی رہنما کے ساتھ ساتھ وہ ایک افسانہ نگار اور قلم کار بھی تھے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں بلوچ وطن کا نوحہ لکھا، بلوچ درد و ازیت کو بیان کیا اور گمشدہ بچوں کی عکاسی کی وہ افسانوں اور ادبی فن پاروں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء پروفیسر ارمان لونی کی بہن وڈانگہ لونی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انسانی حقوق اور انسانی شناخت کے لیے کریمہ بلوچ نے قربانی دی، اپنی قوم کی طرف سے بلوچ سرزمین کی بیٹی کو سلام پیش کرتی ہوں، پشتون اور بلوچ اقوام اپنے ایسے فرزندوں کی قربانی کو خراج دے کر یاد کریں، اپنے شہداء کی برسی منا کر اپنی قوم کو یاد دلاسکیں کہ ہمارے شہداء نے ہمارے لیے قربانی دی ہے، حاکم و محکوم اور ظالم و مظلوم کا ایک سلسلہ ابد سے چل رہا ہے اس کا سبب استحصال ہے۔ پشتون اور بلوچ سمیت محکوم اقوام کے درمیان قومی مفادات کے لیے اتحاد لازمی امر ہے، ہر ظلم اور ہر جبر کے خلاف ہر زمانے میں کوئی موسیٰ پیدا ہوا ہے، ظلم و جبر اور بربریت کے خلاف بلوچ و پشتون جدوجہد جاری ہے ہمارے ہاں بھی موسٰی جیسے کردار پیدا ہورہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم جتنی قسمیں کھائیں یہ لوگ ہمیں محب وطن نہیں کہیں گے اس لیے ہمیں اپنی طرف سے اپنا جدوجہد جاری رکھنا چاہیے، اپنی بد بختیوں سے نجات کا واحد راستہ قوم پرست سیاست ہے، ہمیں قومی سیاست سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے لیکن ہماری نجات کا آخری ذریعہ قومی سیاست ہے۔
بی ایس او کے مرکزی جنرل سیکرٹری بلوچ ماما عظیم نے کہا کہ بلوچ پسماندہ سماج میں کریمہ بلوچ جیسی وژنری سیاسی رہبر کا سامنے آنا حیران کن نہیں ہے کیونکہ بلوچ سماج سیاسی طور پر ہمیشہ مضبوط رہا ہے-
انہوں نے کہاکہ کالونیل ریاستوں میں صرف ایک قوم کی برتری ہوتی ہے باقی تمام اقوام زیر دست ہوتے ہیں، کریمہ بلوچ میں حالات کو فیس کرنے کی جرات تھی، سخت ترین حالات اور الزام تراشیوں کے باوجود کریمہ بلوچ کھڑے رہے، ان میں لیڈرشپ کی تمام صلاحیتیں تھیں۔
این ڈی پی کے مرکزی رہنماء رشید کریم بلوچ نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی مفادات پر ہم سب کو سیاسی اور فروعی اختلافات سے بالا ہوکر ایک دوسرے کا سہارا بننا چاہیے، بانک کریمہ اور بلوچ شہداء نے معمولی مفادات کے لیے نہیں بلکہ قومی مفادات کےلیے قربانیاں دی ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم اپنے قومی مفادات پر بہ حیثیت قوم اور سیاسی کارکن کوئی کمپرومائز نہ کریں اور نا ہی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہوں ہمیں قومی اجتماعی مفادات پر یکمشت ہونا چاہیے۔