کریمہ ایک سوچ نہیں بلکہ بذات خود ایک جہد کا نام ہے – کراچی سیمینار

212

بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کی جانب سے کریمہ بلوچ کی پہلی برسی کی مناسبت سے کراچی پریس کلب میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں مہمانِ خصوصی میر محمد علی تالپور، وائس آف بلوچ مِسنگ پرسنز کے ماما قدیر بلوچ، فاطمہ زیدی، جرنلسٹ عاجز جمالی، پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے رحمان بابر، عورت فاؤنڈیشن سے ماہ ناز، شیما کرمانی، نغمہ اقتدار، جئے سندھ قومی محاز کے مرکزی رہنما الہی بخش بکک، انیس ہارون، وائس آف بلوچ مِسنگ پرسنز کی سمّی دین محمد سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی (کراچی) کی آرگنائزر آمنہ بلوچ نے خطاب کیا اور آخر میں مشعلیں جلا کر کریمہ بلوچ کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

فاطمہ زیدی نے اپنے خطاب کا آغاز عوامی ورکرز پارٹی کے خُرّم علی کی نظم سے کیا جو کریمہ بلوچ کے نام تھا اور کریمہ بلوچ کے سیاسی شعور کو سراہا کہ کس طرح کریمہ کو اپنے دوستوں اور دشمنوں کی پہچان تھی اور کس طرح اپنے دوستوں کو قریب رکھتی تھیں اور اُن پر اعتبار کرتی تھیں۔ اُن کے فیصلہ لینے کی قوت کے بارے میں فاطمہ نے بیان کہا کہ بانُک کبھی بھی فیصلہ لینے میں ہچکچاتی نہیں تھی۔

رحمان بابر نے کریمہ بلوچ کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ ریاست بلوچ اور پختون لیڈران کو مختلف ہتھکنڈوں سے ٹارچر کرکے موت کے دہانے پر پہنچاتی ہے جس سے ریاست اپنے لئے نفرت کا خود ہی آغاز کرتی ہے۔ اگر ریاست مفاہمت کی پالیسی رکھے تو شاید حالات اس قدر خراب نہ ہوں گے۔

نغمہ اقتدار نے اپنے خطاب میں کہا کہ کریمّہ ایک سوچ نہیں بلکہ بذات خود ایک جہد کا نام ہے۔ 21 دسمبر کریمّہ کی شہادت کا نہیں بلکہ بلوچ عورتوں کا دن ہے، اس دن بلوچ خواتین اپنی سیاسی جہد کو منائیں جو کریمّہ کی دین ہے۔

سمّی دین محمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں کچھ بھی کہوں، کوئی بھی لفظ ادا کروں لیکن وہ الفاظ کریمّہ کی جہد کو، اُس کے کردار کو بیان نہیں کرسکتے ہیں۔ اگر آج مجھ میں ہمت ہے اپنے بابا کے لئے اور بلوچ مِسنگ پرسنز کے لئے آواز اُٹھانے کی ہمت ہے وہ کریمّہ کے دئیے ہوئے حوصلے سے ہے۔ اگر ہمیں کریمّہ کو خراجِ تحسین پیش کرنا ہے تو اُن کی جہد کو آگے بڑھا کر ہی ہم اُن کو خراج پیش کرسکتے ہیں۔

آمنہ بلوچ نے اپنے خطاب کا آغاز بلوچی شعر سے کیا اور کریمّہ کے ساتھ کریمّہ کی ماں جمیلہ کا بھی شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی شیر بیٹی بلوچستان کے نام کی۔ کریمّہ کو “لُمّہءِ وطن” کا خطاب دیا گیا جو کریمّہ کی جہد کے ساتھ انصاف ہے کیوں کہ وہ نڈر خاتون فقط اپنی آرگنائزیشن کی دوستوں کی لُمّہ نہیں بلکہ ہم سب جہد کاروں کی لُمّہ ہے وہ بلوچ سرزمین کے لُمّہ ہے۔ آمنہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ جو آج میرا شعور ہے بلوچ قوم کے لئے وہ شعور کریمّہ کی دی ہوئی ہے، اگر میں جہد نہ کروں بلوچ قوم کے لئے ادنا آواز نہ بن سکوں تو شاید میں کریمّہ کی مقروض رہوں گی۔ آمنہ نے آکر میں کہا کہ کریمّہ فقط بلوچ عورتوں کی نہیں بلکہ بلوچ معاشرے کے لئے ایک رول ماڈل ہے۔

آخر میں میر محمد علی تالپور نے اپنے خطاب میں کہا کہ بانُک کریمّہ ایک دن میں پیدا نہیں ہوتی، بہت لمبا راستہ طے کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں اُن پر قطعاً بات نہیں کروں گا جن کی وجہ سے کریمہ آج ہمارے درمیان موجود نہیں بلکہ آج فقط میں کریمہ پہ بات کروں گا کیوں کہ یہ دن کریمہ کا ہے جو ایک روشنی ہے جسے چاہ کر بھی کوئی روک نہیں سکتا۔ ہم بانُک کریمّہ کے قرض دار ہیں اگر ہم اُن کی جہد آگے نہ بڑھائیں، اگر ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں تو شاید بانُک کے گنہگار بھی ہوجائیں گے، اگر ہم بانُک کو کچھ ٹریبیوٹ دے سکتے ہیں تو اُن کے جدوجہد کو آگے لے جانا ہے، اُس کے لئے کوشش کرنی ہے۔ واجہ تالپور نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ بلوچ نوجوانوں، ہار نہیں ماننی-