کراچی کیوں خاموش ہے
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کراچی کو اگر بلوچ سیاست کا مرکز کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ کراچی بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی نہ صرف جنم بھومی ہے بلکہ بلوچ سیاست میں متحرک کردار ادا کرنے والے تمام رہنماؤں کی سیاست کے لئے ایک درسگاہ بھی رہا ہے. شہید غلام محمد، زاہد بلوچ اور دیگر کئی رہنماوں نے کراچی کے بلوچوں کو سیاست میں متحرک کرنے کے لیے کراچی کا دورہ کرکے سیاسی پروگرام مرتب کیئے۔
جب کبھی بلوچستان کو کراچی کی ضرورت محسوس ہوئی کراچی میں بسنے والے بلوچوں نے لبیک کہا اور اپنے بھائیوں کی ہر طرح کی حمایت کی. بلوچستان میں فوجی آپریشن، جبری گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی، اجتماعی قبروں کی دریافت، برمش واقعہ، حیات قتل،، آواران زلزلہ، بانک کریمہ کی شہادت غرض ہر واقعات کے خلاف کراچی کے بلوچ بلوچستان کے بلوچ عوام کے ساتھ شریک احتجاج رہے. کیونکہ کراچی کے بلوچ اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ ہمارا درد و غم، تکلیف، خوشی بلوچستان سے جڑا ہوا ہے، بلوچستان ہمارا مرکز ہے اور جب بلوچستان کو زخم لگتی ہے تو اس کے تکالیف ہم محسوس کرتے ہیں.
ایک اندازے کے مطابق کراچی میں تیس سے چالیس لاکھ بلوچ لیاری، ملیر،گولیمار،فقیر کالونی، مواچھ، بلدیہ، نیول کالونی، ماری پور، منگھوپیر میں آباد ہے.
گوادر میں اٹھارہ دنوں سے حق دو گوادر احتجاج جاری ہے، اس احتجاج کی قیادت مولانا ہدایت الرحمان کررہے ہیں جن کی قیادت میں کیچ، گوادر، اورماڑہ، پسنی میں احتجاجی مظاہرے جاری ہے اور انکے مطالبات ہے کہ روزگار اور عزت نفس کو مجروح کرنے کا سلسلہ بند کردیا جائے اور بارڈر کو کھول کر ضلعی انتظامیہ کے سپرد کردیا جائے، ان مطالبات کے لئے صرف گوادر میں کفن پوش ریلی، بچوں اور خواتین کی ریلی کے علاوہ دھرنا بھی جاری ہے، حق دو گوادر کی حمایت میں آج اورماڑہ اور پسنی میں بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے مظاہرہ کرکے ہائی وے بلاک کردیا۔
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مزاحمتی درسگاہ کراچی کیوں خاموش ہے؟ کیا کراچی کے عوام خوف کا شکار ہے؟ کیا کراچی کے بلوچوں کا دل بلوچستان کے عوام کے ساتھ دھڑکنا بند ہوگیا ہے؟ یا کراچی کے عوام بے حس ہوچکے ہیں؟
کراچی کے عوام کو اس سوال کاجواب لازمی دینا ہوگا کیونکہ کراچی بلوچوں کا اہم شہر ہے جس نے ہر دور میں بلوچستان کے عوام کے شانہ بشانہ جدوجہد میں حصہ لیا اور ہر ظلم کے خلاف جدوجہد کو اپنا قومی فریضہ سمجھا.
جو ظلم ستر سالوں سے بلوچستان میں جاری ہے وہی ظلم کراچی کے بلوچ برداشت کررہے ہیں. ماضی میں جس جبری گمشدگی کا شکار بلوچستان کے عوام رہے ہیں آج کراچی کے بلوچ بھی جبری گمشدگی کا شکار ہیں. بلوچستان میں فوجی آپریشن اور کراچی میں رینجرز کا بلوچ علاقوں کا محاصرہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بلوچوں کو کہیں بھی سکون سے زندہ رہنے نہیں دیا جائے گا.
یہ جو ظالم ہے، ان کا سایہ دکھائی نہیں دیتا یہ بس رات کی تاریکی میں چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے خواتین کے ساتھ بدتمیزی کرکے بلوچ نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا شکار بناتے ہیں اور مقامی بلوچوں کو بدقماش اور بدتہذیب جیسے القابات سے نوازتے ہیں.
مولانا ہدایت الرحمن آج ایک فرد سے تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے اور اسکی جدوجہد کا محور بلوچ قوم ہے. حق دو گوادر تحریک نہ صرف گوادر کی تحریک ہے بلکہ بلوچستان کی آواز ہے، کراچی کی آواز ہے. کیونکہ کراچی کے بلوچ بھی آج انہی مظالم کا شکار ہے. کراچی کے بلوچ حق دو گوادر تحریک کے لئے آواز بلند کرکے بلوچستان کی آواز بنیں، خاموشی اور خوف موت کی علامت ہے اور زندہ قوم کبھی بے موت نہیں مرتا.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں