سندھ کے مرکزی شہر کراچی میں لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کمیپ پریس کلب کے سامنے 4526 ویں دن جاری رہا –
اس موقع پر ڈاکٹر رسول بخش ، ڈاکٹر منیر، ڈاکٹر شازیہ اور ان کے دیگر ساتھیوں نے آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کیا۔
لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا انسان کی انسان پر بالادستی اور اور جبر و استبداد کی پوری تاریخ اس بات کو عیاں کرتی ہے کہ غلامی، محکومی اور تسلط کو قائم رکھنے کے لیے بالادست اور قابض قوتوں نے صرف ریاستی جبر و استبداد کا ہی بے رحمانہ استعمال نہیں کیا بلکہ غلامی ، محکومی اور محکومی کی ذہنی قبولیت کے لیے تعلیمی، ادبی اور ثقافتی سمیت پروپیگنڈے کے مختلف ذرائع وسیع پیمانے پر بروئے کار لائے گئے، یہ حربہ بدلتے اور جدت اختیار کرتے ہوئے دور کے ساتھ نت نئی صورتیں اپناتا گیا۔
انکا کہنا تھا کہ قوموں کو طاقت کے زور پر دبانے کے حربے میں جدت کے باوجود کامیاب تجربات نے ثابت کیا ہے ریاستی تشدد سے غلامی اور محکومی کو عارضی طور پر تو قائم رکھا جاسکتا ہے لیک اسے دیرپا نہیں بنایا جاسکتا اس لیے بالادست قوت نے محکوموں کو زیر تسلط رکھنے کے کئی محاذ کھول دیے۔
انہوں نے کہا کہ جدوجہد کا پرچار قابض قوتوں کے لغو اور حقائق کو مسخ کرنے والے پروپیگنڈہ کے برعکس حقائق کو عوام کے سامنے لاتا ہے اور انھیں حکمرانوں کی چالبازیوں اور سازشی منصوبوں سے چوکنا رکھتا ہے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ تمام تر جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف مستقل مزاجی سے جدوجہد ہمیشہ بار آور ثابت ہوئے ہیں۔ ہماری جدوجہد نے ہمارے سماج میں قبائلی ، مذہبی، فرقہ وارانہ ، غیر سائنسی ، قدامت پسند اور شدت پسندانہ رجحانات کی بیخ کنی میں اپنا حصہ ڈالا اس لیے حقوق کی جدجہد میں سیاسی تنظیموں کا ہونا ، ان کی موجودگی کو تحفظ دینا اور ان کے ذریعے عوامی اظہار ضروری ہے ، اس سے انکار سے ہی جبری لاپتہ افراد کا معاملہ پیدا ہوا اس لیے اسے ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔
ماما قدیر نے کہا ریاستی گماشتہ میڈیا انسانی حقوق کی پامالی ، بلوچ قوم کی نشل کشی اور جنگی جرائم کو عوام کی نظروں سے اوجھل رکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن سوشل میڈیا بلوچ قوم اور دنیا کو مسلسل آگاہ رکھنے کے لیے ایک سرگرم ذریعہ ابلاغ کے طور پر سامنے آیا ہے۔