چلیں خدا سے محبت، ریاست سے بغاوت کرکے دیکھتے ہیں
تحریر: حمل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ساری دنیا بغاوت پہ اتر آئی ہے، ہم کیوں نہ؟ میرے ذہن میں اسی وقت ہی ایک دھماکہ ہوا جب دوستوں کے ساتھ بیٹھے چائے پی رہے تھے اور وہ اس قوم پر تبصرہ کرتے ہوئے مذہبی رسومات کو انسانوں پر تھونپنے سے لیکر رسم و روایات کو قید و زنجیر کہہ کر انہیں قوموں کی رکاوٹ کا سبب کہہ رہے تھے اور اس قوم کو روایات کی پاسداری کا الزام لگاکر انہیں کم ظرف، مفقود ذہنیت اور ان جیسے کئی القابات سے نواز رہے تھے یا یوں کہہ لیجئے کہ وہ خدا سے بغاوت کا کھلم کھلا پرچار کر رہے تھے۔
میرے زہن کی بتیاں گل ہوگئیں کہ لوگ تو خدا سے بغاوت پہ آمادہ ہیں پھر ہم کیوں نہ خود سے، اس خود سر ریاست سے بغاوت نہ کریں جس نے ہماری خون سے ہولی کھیلی، جس نے ایمانداری اور سچی بات بتانے پہ ہمیں کٹے ہوئے سر، خون سے خالی لاشیں دیئے۔
لگتا ہے سامراج کو صرف اس سر زمین کی نہیں بلکہ ان کھولتے ہوئے خون کی بھی ضرورت ہے جنہیں وہ چوس کر خون سے خالی لاشیں واپس کردیتے ہیں۔
میں حیران ہوں کہ اس بیوقوف قوم کو اب تک یہ کیوں معلوم نا ہوسکاکہ یہ خون سے خالی مسخ شدہ لاشیں بھی انکے زندوں سے حد درجہ بہتر ہیں۔
حرکات ہی نسلوں کا پتہ دیتے ہیں۔ اور میرے دشمن کے حرکات انکے نسلی غلامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، شاید پہلے منگول، تاتار، مغل انگریز اور اب ضمیروں کے غلام۔
بس وہ ٹہرے نسلی غلام۔۔۔
چلیں ان نسلی غلاموں سے بغاوت کیوں نہ کریں؟
جس نے ہماری ماں، بہن، بھائی اور باپ جیسے عظیم رشتوں کو اکھاڑہ۔
میں چاروں سمت نظر دوڑا چکا مگر خون، لاشیں اور سسکیوں کے سوا کچھ بھی تو نہیں ملا۔ کچھ بھی نہیں۔ وہ لوگ بھی نہیں جو کل تلک ہمارے درمیان غلط کو غلط کہہ بھی لیتے تھے، وہ لوگ بھی نہیں کہ جن مایہ ناز ہستیوں نے ہمیں ایک سوچ بخشی۔
افراد تو قربان ہو ہی جاتے ہیں مگر جب ماں۔۔۔ جی ہاں جب دھرتی ماں جسے ہم “پھلین ڈغار” کہتے ہیں، وہ بھی تو سرک سرک کر ہماری ہاتھوں سے چلتی بنے۔ گوادر و کاشغر کے نام پہ ماہی گیری، روزگار حتیٰ کہ پینے کا پانی تک چھن جائے۔ حفاظت کے نام پر گوادر و ساحلی پٹی پر وفاقی حکومت کنٹرول کے نام پہ قبضہ کرے۔
واہ کیا کہنے۔۔۔
وہ قبضے کو کنٹرول۔
ٹارگٹ کلنگ کو فوجی آپریشن۔
خونِ ناحق کو دہشگردوں پہ وار
اغواشدہ گان کو بیرون ملک فرار
اور
مسخ شدہ لاشوں کو مقابلائی حملے میں ہلاک شدگان کہہ کر ظلم کریں اور ہم۔۔۔
ہم بغاوت بھی نہ کریں؟
چلیں ایک ایک بار خدا سے محبت ریاست سے بغاوت کرکے دیکھتے ہیں۔
کبھی خود سے بغاوت کرکے دیکھتے ہیں، اپنے آپ کو جھنجوڑ کر اپنے سوئے ہوئے روحوں کو، ضمیروں کو، بلوچستان کے ان فقیروں کو جگاتے ہیں جو آزادی کے خواب دیکھ دیکھ کر ہی کھلے آنکھ سو گئے ہیں۔
مگر یہ میں، آپ اور ہم سب محسوس کر سکتے ہیں کہ بلوچستان میں موجود ہر فرد ان ناروا داریوں، ظلم و ستم کرنے والوں سے بیزار ہے۔ مگر اتنی خاموشی کیوں؟
سناٹا کیوں؟
دل تو سب کے ایک ساتھ ایک ہی آواز سے دھڑکنے لگتے ہیں جیسے سب یک زبان ہوکر کہہ رہیں ہو۔۔
آزادی
آزادی
آزادی
مگر کوئی کچھ زبان پہ لائیں تو کیا کہنا!
شاید بلوچ سرزمین پر برسوں کے ظلم و ستم، جبر مسلسل نے عوام کو یہ سمجھا دیا ہو کہ یہ سر زمین آزاد تھی
اس سر زمین پر بسنے والے لوگ آزاد تھے
مگر آج کیا ہوا؟ یہاں کے باشندگان کو یوں سر نیچے، دبے آواز، خشک اور سوکھے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ نہیں دیکھا گیا۔ مگر آج کیا ہوگیا ہے۔
ظلم کو ظلم سمجھ کر
درد کو محسوس کرکے بھی ہم خاموش کیوں ہیں؟
زندہ تو سب ہیں مگر مردوں میں شمار کیوں ہیں؟
چلیں اک بار جی کر تو دیکھتے ہیں۔۔۔
پھر سے جی لیتے ہیں!
چلیں بس ایک بار کوشش کرکے دیکھتے ہیں۔
ہاں بس ایک بار۔۔۔ بس ایک بار ہی سہی مگر خدا سے محبت ریاست سے بغاوت کرکے دیکھتے ہیں!
دی بلوچستان پوسٹ:اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں