وڈھ میں بدامنی کی بنیادی محرکات بوڑھے بابا کی
تحریر: ڈاکٹر عزیز بلوچ (سابقہ وائس چئیرمین بی ایس او)
دی بلوچستان پوسٹ
بزرگ بابا نے پھراس چوٹی پر جب تمام بھیڑ بکریوں کو اکھٹا کیا تو اس کا کہنا تھا کہ مہمانوں کیلئے ایک کڑک دودھ پتی چائے پیش کی جائے، گویا انہوں نے ہماری دل کی بات جان لی تھی۔ خیر بادلوں کی گرج سے کھنکتا وڈھ کی بشامی شام ہو ، بوندیں تالیاں بجاکر رخسار پہ بوسہ لیکر شرارتیں کررہے ہوں تو یہاں عشق واجب ٹہرتا ہے لازم نہیں یہ عشق کسی زلف کے خم کی ہو عشق پہاڑ، وطن ، بھیڑ بکریوں کی ریوڑ ،بشامی موسم ،جڑی بوٹیوں ، گدان کا سینہ اور تاریخ کے پنوں سے بھی ہوسکتا ہے تو کیوں نہ الفاظ کو سمت دینے کیلئے کاغذ قلم کا استعمال نہ کریں۔
ہم نے کاغذ قلم اٹھالیا اور بوڑھے بابا سے سوال کیا “اور کیسے ہو؟ علاقے میں خیریت ہے؟”
تو بابا نے قلم و کاغذ دیکھ کر کہا بیٹا یہی ہے وہ ہتھیار جو دنیا میں ذہنوں کی لڑائی میں سب سے موثر ہے اس کی گونج صرف ایک گاوں سے دوسرے گاوں نہیں بلکہ اس کی گونج میرے قحط ذدہ صحرا سے ہوکر اٹلانٹکا کے برفانی تودوں سے ٹکراتا ہے بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے اس وطن میں سونے ہیرے دفن تو کئے ہیں لیکن انہیں سجا کر اگلی نسل کیلئے سونار نہیں دیکھ پائے (یہاں بابا کا اشارہ کتاب کے بارے میں تھا ) جس سے نسلیں انہیں دیکھ کر ذہنی قیمتوں کا دام طے کرتے۔ ___خیر ______
بابا نے حالات کی خیریت دریافت کرنے پر محض ہماری طرح ٹھیک ٹھاک کا لفظ ادا نہیں کیا اس نے پہاڑ کی چوٹی پر اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ دور سفید پہاڑ کی چوٹی دیکھ رہے ہو ہم نے سر ہلا کر کہا جی بابا۔
اس نے کہا اس مقام کو دریجی کہتے ہیں بابا کا کہنا تھا وہاں مڈل و میٹرک سے ذیادہ تعلیم کسی حد تک ممنوع ہے موبائل ٹاور ایک گاڑی میں سجائی گئی ہے موبائل ٹاور لگانے کی اجازت نہیں جہاں سرکار گھومے کمیونیکیشن کے سگنلز اس کے پاس گھومتے رہیں اور ہاں وہاں حتیٰ کہ لوگوں کھ شناختی کارڈز بھی گروی رکھے ہوِئے ہیں سفر کی بناء پر بڑے صاحب عطاء کرتے رہتے ہیں۔
تو بابا اس کا ہمارے سوال سے کیا تعلق؟
بابا نے کہا یہی تو کہنا چاہتا ہوں وہاں امن ہے کوئی چور اُچکا نہیں کوئی کسی کا دکان نہیں لوٹتا بالکل ہی امن ہے آپ کبھی جاکر رات گزاردیں وہاں ___
چلو آپ نہیں سمجھینگے وڈھ کا کنارہ لسبیلہ کا مثال لیتے ہیں ہمارے بہت سے وڈھ کے لوگ سردیوں میں وہاں کا رخ کرتے ہِیں وہاں امن ہے رات کو بائک کھڑی کرو تو صبح سلامت ملتی ہے اونٹوں کو تو کوئی سالوں تک ہاتھ نہیں لگاتا ؟
بابا اس سے ہمارے سوال کا کیا تعلق ؟ بیٹا آپ نہیں سمجھینگے وہ دیکھ رہے ہو شاشان کی چوٹی اسے نال کہا جاتا ہے وہ ایک حب ہے راستوں کی ، ایران سے لیکر شال و مائی کولاچی تک لیکن وہاں بھی امن ہے کسی حد تک آپ کبھی راشن لینے نال بازار یا بیسار کی پتھروں کو دیکھنے چلے جاو سب سلامتی حتیٰ کہ یہاں کے چوری شدہ سواریاں امن کی وجہ سے چور وہاں لے جاتے ہیں ؟
تو بابا میں وڈھ کی بات پوچھ رہا ہوں آپ خوامخواہ ہمسایہ برادری اور علاقوں کی مثالیں دیتے آرہے ہو ؟
بابا نے کہا بیٹا یہی تو مسئلہ ہے ان میں اور ہم میں فرق یہی ہے کہ ہمارے سربراہ جو لوہی میں آرام فرمارہے ہیں انہوں نے ہمیشہ زندگی بھر حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں اس لئے ڈالا ہے کہ وہ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کرتے اور اس سزا کے طور پر ان کے علاقے میں بھتہ خوری ، چوری ،قتل و غارت گری ، ڈاکہ اور پتہ نہیں کیا سے کیا خوف کی فضاء قائم نہیں کی جاتی آپ خود اندازہ کریں کئی گرفتار چور باہر علاقے کے ہیں زہری سے گرفتار ایک چور کی ویڈیو آمد ہوئی تھی کی جاو وڈھ میں چوری کرو ہم تمہیں پناہ دینگے دراصل یہ اصولوں کی سیاست و تفکرات کو بلیک میلنگ سے کمزور کرنا چاہتے ہیں چھوڑئیے وڈھ کو ڈیرہ بگٹی کو دیکھئے ایک وائرل ویڈیو میں لوگ شاہ زین بگٹی سے اپنے سینکڑوں لاپتہ بگٹی قبائل کی بازیابی کا پوچھ رہے ہیں کیوں؟
کیوں ہوا یہ سب؟ اس لئےکہ اکبر خان اصولوں پہ جھکا نہیں اسی طرح جس جس علاقوں کے رہبروں نے اصولوں پہ وطن پرست سیاست کا بیج بویا ہے ان کے علاقوں اور بیابانوں کو جہنم بنا دیا گیا ہے۔
ہمیں چھوڑیہے آپ الجزائر و فرانس کا معرکہ دیکھ لیں آپ افریقی ممالک میں کشت و خون و لیبیا کی بزرگ عمر مختار کا میوزیم میں پڑا چشمہ دیکھ جن جن رہبروں نے اصول و شناخت کے بابت سوال کیا ہے کشت و خون پھانسیاں غارت گری ان کے دروازوں پر منڈلائے ہوئے ہیں لیکن یہ ایک بچگانہ عمل ہے اس سے دوریاں اور بڑھتی ہیں کم نہِیں ہوتے، میں اپنے ہر بھیڑ کو آوازوں سے پہچانتا ہوں تو میری نئی نسل ہر دستانے والے ہاتھ کو بھی پہچان لینگے، یہ سب تو ہماری روایات میں نہیں کہ کسی کے جان و مال پر بے اصول ڈاکہ ڈال دیں۔
اور میں نے پہلے کہا جن علاقوں کے علاقائی سربراہاں نے کسی مقام پہ سمجھوتہ اور مصالحت کی ہے ان کے مثالی امن کے گہوارہ علاقے ہیں کیوں۔
تو سب کو بتا دینا ہم بدامنی میں جی لینگے سہہ لینگے تمہارے سازشوں کو لیکن اصولوں سے پیچھے ہٹنا اور نہ جھکنے پہ یقین نہ آئے تو عطاءللہ مینگل کے قبر پہ حاضری دینے ضرور جانا۔
بیٹا ہماری تو یہی باتیں ہیں تم سناو اپنا ؟
بابا ! بس ہم قلم سے آپ کے باتوں کو لوگوں کی ذہنوں میں ڈالنے کی کوشش کرینگے سوچنا اور جواب دینا ان کا کام ہے
شکریہ بابا محترم
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں