میرے قوم کے نرمزاریں فرزندان – سگار جوھر

594

میرے قوم کے نرمزاریں فرزندان

تحریر: سگار جوھر

دی بلوچستان پوسٹ

جب کبھی لکھنے کو جی چاہتا ہے، تو دل و دماغ کہتا ہے کہ سرزمین کی آزادی کے خاطر، درد کو آرام پہنچانے کے خاطر، اپنے وطن کے شہیدوں کے خون کے خاطر، سرزمین کی خوبصورتی کے خاطر، نواجونوں کو حقیقی راستے پر لانے کی خاطر، معاشرتی برائیوں سے دور رہنے کے خاطر اور سامراج سے لڑنے کے خاطر لکھو پتہ نہیں جب سوچنے لگتا ہوں تو ہزاروں خیالات ذہن میں آتے ہیں کہ کہ لکھوں تو کیا لکھوں ، کس آدمی کے بارے میں لکھوں، کسی نفسیاتی قیدی کے بارے میں لکھوں، کس اسیر سنگت کے بارے میں لکھوں کیونکہ اس پاک سرزمین میں فرزندِ سرزمین کی اپنی ایک الگ داستان ہے، یہاں ہر ماں کی گود میں پیغمبر بیٹھے ہیں، ہر باشعور بلوچ نوجوان وطن کی آزادی کے لیے تیار ہیں، سامراج کو شکست دینے کے لیے تیار ہیں، ڈر سے بیگانہ ہوکر جرت مندی سے بلوچ کی آواز کو دنیا تک پہنچانے کے لیے تیار ہیں، اور بلوچ مرد و زن جنگی محازوں اور مسلح جدوجہد میں شامل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں.

ایک ایسا وقت بھی تھا کہ خاموشی کا عالم تھا کہ پہاڑوں میں اڑتی ہوئی مکھی کی بھنبھناہٹ بھی صاف سنائی دیتی تھی لیکن ایک مدت کے بعد دو بار جب بلوچ سرمچاروں نے مشکے ھوگار میں ناپاک پاکستانی آرمی کو نشانا بنایا تو مجھے ایسا لگا کہ ” ناکو ” سے جاملو .جب پھر اچانک ہم ایک دوسرے کے ساتھ ملے تو بہت فخر کیونکہ سرمچاروں کے ساتھ گفت و شنید ہی ہمارا درس ہے جہاں صرف قوم کی بات ہوتا ہے نہ کہ کسی رنگ، نسل، زات اور قبیلہ کی. آج اس تحریر میں اس واقعہ کو بیان کا صاف مقصد اپنی جذباتی کیفیت کو بیان کرنا ہے کہ ایک عام بلوچ کے زہن میں روز و شپ کیا چلتا رہتا ہے.

جب ایک فرد کسی کٹھن مراحل کو پیشانی سے طے کرکے رومانیت، ایڈونچرزم، حیوانیت، جہالیت، خوف و بے حیائی اور بیگانیت سے دور رہ کر جدوجہد کی راہ پر گامزن ہوتا ہے وہی فرد آگے جاکر پورے قوم کو آزادی کا رستہ دکھا کر خود توپوں اور بمبوں کے سامنے لڑتے ہوئے شہادت اختیار کردیتا ہے یاکہ زندانوں میں مقید اپنے باقی زندگی کو گزارتا ہے اور وہاں دل و سکوں سے پرامید رہتاـہے کہ آزادی ہماری ہی مقدر ہی رہے گی. کچھ ایسے نوجوان جو اپنے سروں کو وطن کی آزادی کے خاطر قربان کرتے ہیں، ان کے نہ کوئی زاتی رشتہ ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی تعلق جو اسے اس راستہ جھکنے پر مجبور کر دیتی ہیں. بلکہ یہاں وہ ایک ایسے رشتے سے وابستگی رکھتا ہیں جو انہیں ہر قسم کی زندگی کا درس دیتا ہے وہ رشتہ عام انسانوں کی پہنچ سے دور ہے وہ انقلابیوں کا رشتہ ہے ، وطن کے جان نثاروں کا رشتہ ہے، محبت و جدوجہد کا رشتہ ہے. یہ وہی رشتہ ہے جہاں انسانوں مستقل مزاجی، مخلصی، اور اچھے رہنما ہونے کا درس سیکھتا ہے. آج بلوچ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس کا مذہب، جنت اور ماں اسـکی سرزمین ہی ہے جہاں مذہب کو چھوڑ کر آزادی کے خاطر سر بلند کی طرح ہزاروں نوجوان فدا کے لیے تیار ہیں.

میں جس طرح اپنے جذبات کو اس تحریر کے توسط بیان کر رہا ہوں یقیناً میرے الفاظ میری گل زمین کے فرزند کی رتی بھر ترجمانی نہیں کرسکے گے. لیکن جو صلاحیت، دشمن سے لڑنے کی صلاحیت، مستقل مزاجی اور آزادی کی خواہش بلوچ قوم کے نوجوانوں کے پاس ہیں وہ مجھ سمیت ہزاروں لکھاریوں کے چند الفاظ سے نہیں آسکتی بلکہ اس کے لئے عملی میدان میں جدوجہد لازمی ہے جسے ہمارے نوجوان بخوبی سر انجام دے رہے ہیں. صرف ایک بلوچی جملے سے کہنا چاہتا ہوں ” سرخ سلام منی راجی پر مڑائیں سرمچاراں.”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں