بلوچستان کے طلبہ تنظیموں نے آج کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے رواں سال کے یکم نومبر کو جامعہ بلوچستان کے احاطے سے دو طالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور تاحال ان کا کسی قسم کا پرسان حال نہیں ہے۔جامعہ کے احاطے سے دو طالبعلموں کی جبری گمشدگی کو جہاں طالبعلموں کی جانب سے نہایت ہی تشویش کا اظہار کیا گیا وہیں طلبا تنظیموں کی جانب سے بطور احتجاج جامعہ کو بند کیا گیا اور تقریبا تین ہفتہ دھرنا کے بعد حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے مذاکرات کیے گئے لیکن مذاکراتی کمیٹی کی جانب سے تاحال کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے جو کہ نہایت ہی تشویشناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا نہ ختم ہونے والا تسلسل دہائیوں سے جاری ہے۔جہاں بلوچستان کی عوام بغیر کسی طبقاتی تفریق کے اس غیر انسانی اور غیر آئینی عمل کا شکار ہوچکی ہے وہیں طالبعلم اور تعلیم یافتہ طبقہ اس عمل سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔بلوچستان میں جہاں ایک جانب تعلیمی نظام نہایت ہی مخدوش ہے تو دوسری جانب تعلیمی اداروں میں ایک خوف کی فضا کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جہاں طالبعلم اپنے علمی و تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے سے قاصر ہیں۔ تعلیمی اداروں میں سکیورٹی فورسز کی تعداد کو دن بہ دن بڑھایا جا رہا ہے اور تعلیمی ادارے درسگاہ کم بلکہ چھاؤنی نظر آتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ جہاں سکیورٹی کے نام پر اربوں فنڈز لیتی ہے وہیں جامعہ انتظامیہ ہاسٹلوں میں بھی طالبعلموں کو حفاظت دینے سے قاصر ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جامعہ بلوچستان کے احاطے سے سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کی جبری گمشدگی کسی بھی تعلیمی ادارے سے طالبعلموں کی جبری گمشدگی کا پہلا اور انوکھا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی سینکڑوں طالبعلموں کو بلوچستان بھر کے جامعات سے جبری طور پر لایا گیا اور اس کی واضح مثال گزشتہ ہفتے گوادر یونیورسٹی کے ہاسٹل سے تین طالبعلموں کی جبری گمشدگی ہے۔ جہاں بلوچستان کے طالبعلموں کو اعلی تعلیم تک پہنچنے کے لیے سینکڑوں رکاوٹیں عبور کرنا ہوتا ہےوہیں اعلی تعلیمی اداروں میں بھی تدریسی عمل کا حصہ بننا طالبعلموں کےلیے وبال جان بن گیا ہے اور طالبعلم ان اداروں کے احاطے میں خود کو کسی بھی صورت محفوظ تصور نہیں کرتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں طالبعلموں کا خود کو غیر محفوظ تصور کرنا اور تسلسل کے ساتھ جامعات سے طالبعلموں کی جبری گمشدگی کسی المیے سے کم نہیں۔
انہوں نے کہا کہ یکم نومبر کو جامعہ بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ کیے جانے والے دو طالبعلم سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کی باحفاظت بازیابی کےلیے جامعہ کے طالبعلموں اور بلوچستان کے طلبا تنظیموں کی جانب سے جہاں جامعہ میں احتجاجی ریلیاں نکالیں اور جامعہ انتظامیہ سے طالبعلموں کی بازیابی میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی گئی لیکن جامعہ انتظامیہ نے طالبعلموں کی جبری گمشدگی کو کسی بھی طور سنجیدہ نہیں لیا ہے۔ جہاں جامعہ انتظامیہ کی جانب سے کوئی سنجیدگی نہیں دیکھتے ہوئے طلبا تنظیموں کی جانب سے ۹ نومبر کو جامعہ بلوچستان تمام قسم کے سرگرمیوں کےلیے بند کیا اور جامعہ کے دروازے پر دھرنا دیا جو اٹھارہ دن جاری رہنے کے بعد حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے مذاکرات کے بعد پندرہ دنوں کے لیے موخر کر دیا گیا۔ حکومتی نمائندوں کی جانب سے ہمیں یقین دہانی کرائی گئی کہ حکومت پندرہ دنوں کے اندر گمشدہ طالبعلموں کا بازیاب کرتے ہوئے انھیں جلد از جلد منظر پر لایا جائے گا۔ لیکن ا ب چونکہ معینہ مدت کو گزرے ایک ہفتے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن حکومت کی جانب سے نہ تو طالبعلموں کو منظر عام پر لایا گیا اور نہ ہی کوئی خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سہیل بلوچ اور فصیح بلوچ کی بازیابی کےلیے تین ہفتے تک سخت سردی میں احتجاجی دھرنا کے بعد تاحال حکومت کی جانب سے طالبعلموں کی بازیابی کےلیے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی یقین دہانیاں ڈھونگ ثابت ہوئی ہیں ۔ دونوں طالبعلموں کی جبری گمشدگی کو اب چونکہ ڈیڑھ ماہ سے زائد کا عرصہ مکمل ہونے جا رہا ہے اور ابھی تک لاپتہ طلبا کو منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے. حکومتی بے حسی کو دیکھتے ہوئے ہم اس پریس کانفرنس کی توسط سے اپنے احتجاجی شیڈول کا اعلان کرتے ہیں جس کا آغاز کوئٹہ سے کیا جارہا ہے. کل 18 دسمبر 2021 کو بوقت دو بجے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا. جس کے بعد دیگر شہروں میں اس احتجاجی مظاہروں کو وسعت دی جائے گی.
انہوں نے کہا کہ ہم بلوچستان بھر کے طلبا اور باشعور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ طلبا کی بازیابی کیلیے ہمارے احتجاجی مظاہروں کا حصہ بنیں.