عالمی یوم انسانی حقوق کے موقع پر “لاپتہ افراد پاکستان کا پوشیدہ المیہ” کے عنوان سے اسلام آباد میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں بلوچستان سے لاپتہ افراد کے لواحقین نے شرکت خصوصی طور پر شرکت کی۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے تقریب پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہوئی جس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماء سردار اختر مینگل، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، پشتون تحفظ مومنٹ کے رہنماء منظور پشتین، انسانی حقوق کے رہنماء آمنہ مسعود جنجوعہ، سینئر صحافی حامد میر ، عاصمہ شیرازی، مطیع اللہ جان، سلیم صحافی، رکن اسمبلی و نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنماء محسن داوڑ، افسریاب خٹک، جمیعت علماء اسلام کے جنرل سیکٹری مولانا عبدالغفور حیدری، مسلم لیگ نون کے احسن اقبال، نیشنل پارٹی کے کبیر محمد شہی اور وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء سمی دین بلوچ شریک تھے –
مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج عالمی انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر جس عنوان سے یہ کانفرنس منعقد ہوا ہے وہ موجودہ دور میں پاکستان میں سب سے بڑی اور خوفناک بات ہے، لاپتہ افراد کا مسئلہ آج کا نہیں بلکہ پاکستان میں کئی دہائیوں سے یہ مسئلہ موجود ہے ان تمام ادوار میں کئی حکومتیں آئی لیکن لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ کبھی بند نہیں ہوسکا-
ریفرنس میں شریک آل پارٹیز رہنماؤں نے بلوچستان سے آئے لاپتہ افراد کے لواحقین سے ملاقات کی۔ بلوچستان سے جبری گمشدگی کے شکار ڈاکٹر دین محمد بلوچ، جہازیب محمد حسنی، حب سے لاپتہ عامر بلوچ، بی ایس او آزاد کے رہنماء لاپتہ شبیر بلوچ، زاہد کرد بلوچ، مستونگ سے لاپتہ سعید احمد، لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ، خضدار کے رہائشی لاپتہ آصف بلوچ و رشید بلوچ کے لواحقین سمیت بلوچستان سے لاپتہ افراد کے دیگر کئی خاندانوں نے سیمینار میں شرکت کی –
سیمنار سے گفگتو کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی رہنماء سردار اختر مینگل نے کہا کہ آج کے عنوان سے شریک یہاں لاپتہ افراد کے لواحقین کی تعداد کچھ بھی ہو لیکن بلوچستان میں ایک المیہ ہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاپتہ ہیں ہم جب لاپتہ افراد کے بارے میں کوئی بات کرتے ہیں یا بلوچستان میں جاری کسی بھی مسئلہ پر لب کشائی کرتے ہیں تو ہمیں کھا جاتا ہے کہ آپ بلوچستان میں بیٹھ کر گلہ کرتے ہیں کبھی اسلام آباد آکر اپنے مسائل سنائے تو آج ہم نے اس کانفرنس کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد کیا –
اختر مینگل نے کہا کہ اسلام آباد کے سیاسی ارکان اور صحافی آج یہاں اس تعداد میں موجود نہیں کیونکہ جس عنوان سے ہم نے ییہ کانفرنس منعقد کی ہے شاید پاکستان کے دیگر جگہوں پر خاص کر اسلام آباد کے لئے یہاں رہنے والوں کے لئے کوئی بڑی بات نہیں اس کے بدلے اگر ہم نے یہ اعلان کیا ہوتا کے آج ہم یہاں حکومت کے حمایت میں گفگتو کررہے ہیں تو یہاں لاپتہ افراد کے لواحقین جہاں بیٹھے ہیں انہیں بیٹھنے کے لئے جگہ میسر نہیں ہوتی۔ آج یہاں مظلوموں کی بات ہورہی تو کوئی اس تعداد میں یہاں شامل نہیں ہوا –
سینئر صحافی و تجزیہ نگار حامد میر نے کہا کہ یہاں فوج لوگوں کو اٹھاتی ہے اور ان کے لواحقین کو لاش تک واپس نہیں کرتی، اختر مینگل کے بھائی اسد مینگل سے شروع ہونے والا لاپتہ افراد کا سلسلہ آج بھی اسی شدت کے ساتھ جاری ہے۔ حامد میر نے کہا کہ اس سے قبل ریاستی ادارے یہ بہانہ کرتے تھے کہ لاپتہ افراد افغانستان فرار ہوئے ہیں، اشرف غنی انہیں پناہ دے رہا ہے لیکن اب افغانستان میں آپ کی طالبان کی حکومت ہے اب بھی لوگ لاپتہ ہورہے ہیں تو اب کہا جارہے ہیں –
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی دین بلوچ نے بلوچستان سے جبری طور پر لاپتہ افراد کے لواحقین کی نمائندگی کرتے ہوئے لاپتہ افراد کیلئے قوانین و اداروں کے عدم تعاون کے حوالے سے تفصیلی بات کی۔
اس موقع انہوں نے کہا کہ اداروں میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی تذلیل کی جاتی ہے جبکہ حکومت نے قانونی سازی میں لاپتہ افراد کے لواحقین کیس ثابت نہ ہونے پر سزا تجویز کی ہے جو ہر حوالے سے ناانصافی ہے کیونکہ پاکستان کی عدلیہ اور پولیس خفیہ اداروں کے سامنے بے بسی کا اظہار کرچکے تو لواحقین کس طرح اپنے کیسز ثابت کرسکتے ہیں۔
سمی دین نے کہا کہ دس مہینے قبل اسلام آباد میں احتجاج کے وقت لواحقین سے جھوٹے وعدے کرکے انہیں واپس بھیجا گیا لیکن آج تک لاپتہ افراد کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
سینئر صحافی عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا المیہ بہت ہی خوفناک و غمزدہ المیہ ہے لیکن لاپتہ افراد کے لواحقین جس طریقے سے مزاحمت کررہے ہیں یقیناً انقلاب یہی خواتین لائینگے –
نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے رہنماء محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ پوری پاکستان میں ہے، قبائلی علاقوں میں بھی یہ عمل فوج کی جانب سے دہرائی گئی لیکن بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ سب سے زیادہ ہے اور اس مسئلے پر آج تک اقتدار میں آنے والے بہت سے کرداروں نے دعوے تو کئے لیکن اس مسئلہ کو حل نا کرسکے –
ریفرنس میں بڑی تعداد میں سیاسی کارکنان، انسانی حقوق و سول سوسائٹی کے ارکان، وکلاء شریک تھے –
ریفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنماء محمود خان اچکزئی کا کہنا تھا کہ مقامی لوگوں کے خلاف باہر سے آنے والے فوجی کا رویہ انگریز دور سے ہی سخت اور مختلف رہا ہے لوگوں کو اپنے وطن سے محبت کے پاداش میں لاپتہ کیا جارہا ہے پاکستان کو سمجھنا چاہیے ناانصافی سے ملک ٹوٹتے ہیں اس لئے ایک دفعہ یہ ملک ٹھوٹ چکا ہے –
پشتون رہنماء کا کہنا تھا پنجاب نے ہمیشہ سے پاکستان میں موجود دیگر اقوام سے تعصب والا رویہ اپنایا ہے۔ بلوچ، پشتون، سندھی پر ظلم کے پہاڑ تھوڑ نے کے بعد ہم سے یہ امید کی جائے کہ ہم پاکستان زندہ باد کہینگے یہ بے وقوفی ہے –
پشتون تحفظ مومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے کہا کہ پاکستان میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے لئے نا عدالتیں ہیں نا ان عدالتوں میں انصاف، آج ہر گھر، تعلیمی ادارے، بلوچستان اور فاٹا کا ہر کونا اس جبری گمشدگی جیسے مسائل کا شکار ہے اور نا کوئی جگہ ان نوجوانوں کے لئے محفوظ ہے جہاں وہ رہ سکے، اپنی تعلیم حاصل کرسکے یا کوئی روز گار کرسکیں۔ کسی شخص کے لاپتہ ہونے سے صرف وہ شخص ہی نہیں بلکہ اسکا پورا خاندان اذیت کا شکار ہوتا ہے۔
پشتون رہنماء کا کہنا تھا اس ملک میں آزادانہ تحقیقاتی ادارہ نہیں، ریاستی ادارے منصوبہ بندی سے لوگوں کو لاپتہ کرتے ہیں اور یہ وہ بہتر جانتے ہیں کے ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں –
کانفرنس میں موجود دیگر سیاسی رہنماوں و تجزیہ نگاروں نے بات کی۔ جبکہ سمینار مقررین نے بلوچستان سے آئے لاپتہ افراد کے لواحقین کے کیسز پر جوڈیشنری و آزادانہ تحقیقاتی ادارے تشکیل دینے سمیت لاپتہ افراد کو منظر عام پر لاکر فری ٹرائل کا موقع دینے کی گزارش کی