سربلند عرف عمر جان – ذرناز بلوچ

1392

سربلند عرف عمر جان

تحریر: ذرناز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آج پہلی بار میں کچھ لکھ رہی ہوں کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کہاں سے شروع کروں۔ ہاتھ کانپ رہے ہیں ، دل کی دھڑکنیں تیز ہو رہی ہیں آنکھوں سے آنسو آرہے ہیں ایک ایسے عظیم دوست ایک مہروان سنگت کے بارے میں جس نے مجھے یہ سکھایا کہ قربانی اور وطن پر مرمٹنا ہی زندگی ہے۔اس عظیم سنگت کا نام عمر جان ہے۔

2020 کی سردیوں کی راتیں تھی جب میں نے پہلی بار عمر جان سے بات کی وہ نہایت مخلص اور مہروان محبت کرنے والا انسان تھا، بہت مزاق اور تنگ کرتا تھا ایک سچا جہد کار اور زمہ دار تھا۔ ہم جب بھی باتیں کرتے تھے وہ تنظیمی کاموں میں مصروف ہوتا۔

وہ ہر وقت کام کرتا تھا، کبھی کبھی کچن بھی سنبھالتا تو کبھی سنگتوں کے دیئے ہوئے دوسری ذمہ داریوں کو پورا کرتا تھا۔یا پھر فارغ وقت میں بچوں کو پڑھاتا تھا وہ ایک ایسے نظریئے کا مالک تھا جس نے مجھے شعور دیا جس نے مجھے آگاہی دی کہ ظلم کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔

لیکن مجھے پتا نہیں تھا عمرو (عمر) ایک عظیم راہ کے لیئے تیار ہورہا تھا، وہ فدائی کا تاج اپنے نام کرنے جارہا ہے، اپنے فدائی حملے سے ایک ماہ قبل ہی اس نے رابطے ختم کیئے تھے نمبر اس کا بند تھا، وہ سنگت اچانک سے آف لائن ہوگیا،

تب ہم بہت پریشان ہوگئے کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ عمر جان کہاں ہے کیسا ہے، اور اسکے ساتھی کیسے ہیں کچھ معلوم نہیں تھا
ہم انتظار میں تھے کہ وہ کب آئے گا لیکن ہمیں پتا نہیں تھا کہ وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔

ایک دن میں نے اس سے کہا کہ سنگت آپ ہمیں چھوڑ کے مت جانا ابھی ہمیں آپ سے بہت کچھ سیکھنا ہیں ہمیں اکیلا مت چھوڑنا، اگر میری عمر درکار ہیں تو میری عمر آپکو لگ جائے۔

عمر جان نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور کہا کہ پگلی آپ نے مجھے لمبی عمر کے لیے دعا دی ہے وہ میرے لئے ایک بد دعا ہے عمر جان کو بڑی عمر پسند نہیں تھا، وہ جانتا تھا زندگی کسے کہتے ہیں، مقصد کیا ہے، وہ جانتا تھا کہ کیسے مرکر زندہ رہنا ہے۔

رواں سال بیس اگست کی رات تھی جب میں اپنی بہن کے ساتھ بیٹھی کچھ باتیں کر رہی تھی کہ اچانک سے میرے بھائی نے کہا کہ آج نا پاک دشمن پر فدائی حملہ ہوا ہے، اور میرے پوچھنے پر بھائی نے مجھے عمر جان کی سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی گئی تصویر دکھائی جس پر انہوں نے اپنا آخری پیغام دیا تھا۔

وہ گرمیوں کی بھیانک رات آج بھی مجھے یاد ہے، جب مجھے پتا چلا کہ عمرو جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوگیا، لیکن اس نے اپنا نظریہ و راستہ ہمارے لیئے چھوڑ دیا ہے۔

آج جب بھی میں عمر جان کے بارے میں سوچتی ہوں تو بس اسکا نظریہ، سوچ و فکر، اپنائیت خلوص اور محبت مجھے یہ احساس دلاتی ہے کہ سچے اور بہادر جہدکار صرف جسمانی حوالے سے ہم سے دور ہیں فکری اور شعوری حوالے سے نہیں۔

میں آخر میں اپنے تمام بلوچ بھائیوں، اپنے فکری سنگت اور ہر با شعور بلوچ بھائی سے یہی کہونگی کہ ہمیں عمر جان کی زمہ داریوں کو آگے بڑھانا ہے، ہم سب تو عمر جان ۔سر بلند تو نہیں بن سکتے لیکن ہم کوشش کریں ایک سچے اور مخلص جہدکار بننے کی، میں اپنے سنگت عمر جان کیلیئے تو بہت کچھ لکھنا چاہتی ہوں مگر اس عظیم ہستی کیلئے میرے پاس ایسے خاص الفاظ نہیں ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔