ریکوڈک؛ یہ کسی نے بھی نہیں بتایا – اعظم الفت بلوچ

411

ریکوڈک؛ یہ کسی نے بھی نہیں بتایا

تحریر: اعظم الفت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ پراجیکٹ کے حوالے سے بلوچستان اسمبلی کا ان کیمرہ اجلاس دس گھنٹے تک جاری رہا۔ 65 رکنی ایوان کے 42 ارکان ان کیمرہ سیشن میں شریک ہوئے، ریکوڈک پراجیکٹ کے حوالے سے بلوچستان اسمبلی کا ان کیمرہ سیشن بہت سے سوالات چھوڑ گیا۔ وکلا برادری نے پراجیکٹ کی تفصیلات خفیہ رکھنے کے خلاف عدالتوں کا بائیکاٹ کیا، جبکہ اپوزیشن سمیت حکومتی اتحادیوں نے بھی ریکوڈک معاملے پر ٹروتھ کمیشن بنانے کے مطالبات سامنے آئے۔حکومتی ترجمان کے مطابق ان کیمرہ بریفنگ کا مقصد عوامی نمائندوں کو قومی اہمیت کے حامل منصوبے پر اعتماد میں لینا تھا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل پاکستان اور وفاقی اداروں نے ایوان کو بریف کیا۔ بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ بلوچستان اسمبلی میں ان کیمرہ بریفینگ کا اہتمام کیا گیا۔

ترجمان بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ حکومت بند کمروں میں فیصلے کرنے پر یقین نہیں رکھتی۔ ریکو ڈک سمیت تمام اہم صوبائی امور پر مشاورت سے فیصلے ہونگے۔ فیصلوں میں اپوزیشن سمیت تمام جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینگے۔ صوبے کے تمام فیصلے اپوزیشن ، پارلیمانی پارٹیوں اور اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ہی کئے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ میر قدوس بزنجو نے میڈیا سے گفتگو میں بتایاکہ ریکوڈک معاہدے میں کچھ خفیہ نہیں، عوام کے نمائندوں کو معزز ایوان میں پراجیکٹ کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا گیا ہے، وزیر اعلیٰ بلوچستان کاکہنا تھا کہ ہم بلوچستان کے نمائندے ہیں ، بلوچستان کے حقوق اور وسائل پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

ریکوڈک تانبے اور سونے کی کانیں بلوچستان کے ضلع چاغی میں واقع ہیں۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی تانبے اور سونے کی کانوں میں سے ایک ہے۔ جس کے پاس 5.9 بلین ٹن تانبے اور سونے کے ذخائر کا تخمینہ ہے۔ آئی سی ایس آئی ڈی ایوارڈ کی مقدار آئی ایم ایف سے ملک کو دیئے گئے بیل آو¿ٹ پیکج کی طرح ہے۔ چاغی ریت کے ٹیلوں سے بھرا 44,748 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ ملک کے 1998 کے جوہری تجربات کی جگہ ہونے کے علاوہ، یہ اپنے بڑے معدنی وسائل کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ جیولوجیکل سروے کے مطابق اب تک یہاں 23 معدنیات کی موجودگی کی نشاندہی کی گئی ہے، ریکوڈک بلوچستان کے جادوئی پہاڑ ہیں۔

ریکوڈک اور TCC کیس میں ملک کے سامنے سب سے اہم مسئلہ صرف ہرجانے کی مقدار کا تعین نہیں کر رہا ہے جو اسے عالمی بینک کے ایوارڈ کے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس ICSID کی تعمیل میں ٹیتھیان کاپر کمپنی کو ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ملک کے لیے اصل چیلنج گورننس کے بحران کی ذمہ داری کو تسلیم کرنا اور اسے قبول کرنا اور مستقبل میں بین الاقوامی سرمایہ کاری سے نمٹنے کے لیے مربوط حکمت عملی وضع کرنا ہے۔

عالمی بینک کے سرمایہ کاری کے تنازعات کے حل کے لیے بین الاقوامی مرکز ICSID نے جولائی 2019 کے اوائل میں پاکستان پر عائد 6 بلین ڈالر کے بھاری جرمانے کے نفاذ پر روک لگا دی تھی۔ عالمی بینک کے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹس آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس آئی سی ایس آئی ڈی کے ٹریبونل نے پاکستان کو ٹیتھیان کاپر کمپنی کو 4 بلین ڈالر سے زائد کا ہرجانہ اور پری ایوارڈ سود کے علاوہ 1.7 ڈالر ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ ٹربیونل کے فیصلے کے مطابق پاکستان نے ٹیتھیان کاپر کمپنی کو ریکوڈک چاغی بلوچستان میں تانبے اور سونے کے ذخائر کی لیز پر دینے سے غیر قانونی طور پر انکار کر دیا۔ TCC نے پاکستان پر سزا کے نفاذ کے لیے پانچ مختلف ممالک کی عدالتوں سے بھی رجوع کیا۔ گزشتہ سال نومبر میں پاکستان نے مختلف بنیادوں پر ایوارڈ کی منسوخی کے لیے عالمی عدالت انصاف میں درخواست دائر کی تھی۔ پاکستان کی درخواست کے اندراج کے ساتھ ملک کو ایک عبوری ستارہ دیا گیا تھا۔

ریکوڈک کے حوالے سے ان سیشن اجلاس کے علاوہ خفیہ معاہدوں کو پریس کے حوالے کرنے کے مطالبے سامنے آئے ہیں۔

سپریم کورٹ بار ایسوسیشن کے سابق صدر سینٹر امان اللہ کنرانی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان کے قیمتی معدنی دولت ریکوڈک کو ہتھیانے کے لئے ایک اورDHA،NLC یا FWO کی طرز پر ایک معدنیات کی تلاش کی کمپنی تشکیل دے کر جو ایک فرنٹ مین کا کردار کرے گا دراصل وہ سابقہ کمپنی TCC کا Proxy یعنی متبادل ھوگا جس کا مقصد اس کمپنی کو فائدہ پہنچاکر اپنے مالی مفادات سمیٹنا ہے ، انہوں نے کہا کہ جیسے نواب محمد اسلم رئیسانی کی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے 7 جنوری 2013 کے بعد ریکوڈک منصوبے کے افتتاح کے 15 جنوری 2013 کی تاریخ سے قبل اس کی حکومت کو بیک بجنبش قلم ختم کرکے صوبے میں منی مارشلالگا دیاگیا بلوچستان اسمبلی کے فلور پر وفاق کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی بریفنگ دراصل آئین کے آرٹیکل 172 اور آئل &گیس کے ریگولیشن 1948 کے منافی ہے۔ اسکے علاوہ صوبائی حکومت کے اتحادی پاکستان تحریک انصاف نے ریکوڈک کے معاملے پر ٹروتھ کمیشن تشکیل دینے اور معاہدے کو خفیہ نہ رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت کیا ریکوڈک کے حوالے سے ایک نئے معاہدہ کرنے جارہی ہے یا سابقہ معاہدات سے آگاہی حاصل کررہی ہے یہ کسی نے بھی نہیں بتایا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں