رات کون شال کی گلیوں سے گزرا؟ ۔ محمد خان داؤد

188

رات کون شال کی گلیوں سے گزرا؟

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

یہ صدایوں کی صدا جو نیلے آکاش سے کانوں کی سماعت میں گونجنے لگتی ہے کہ ”جب انسان کے ہاتھوں سے سب کچھ پھسل جاتا ہے تو کہانی اس میں اُمید جگانے آتی ہے
کہانی کو صحیح پیش کر کے کچھ انسان نبی بن گئے اور کچھ ولی!
اور کچھ آسماں والے کے خاص بندے
پر بہت تھوڑے لوگ ہی جان پائے کہ اصل میں تو وہ کہانی گر ہیں
کہانی ہی سنانے آئے ہیں!“
پر ایسی صدا کو نہ تو بند کان سن سکتے ہیں اور نہ اپنے میں مست دل محسوس کر سکتے ہیں۔

اداس بھجتے دل، اور ہر شور اور دروں کی ہلکی سی آہٹ پر بھی جاگ جانی والی آنکھیں،اور سنتے کان تو ایسی صداؤں کو سنتے ہیں،محسوس کر سکتے ہیں،آنکھیں رو سکتی ہیں، دل جل کر بجھ سکتے ہیں، بجھ بجھ کر جل سکتے ہیں، بند آنکھوؤں کی پلکیں نیند سے بھا ری ہونے کے باجود سوتی ہیں،ان آنکھوں پر نیند کی بارش تو کیا پر نیند کی اُوس بھی نہیں برستی،وہ آنکھیں جاگتے ہیں جو جاگتی ہی رہتی ہیں پر وہ آنکھیں نیند میں بھی جاگنے کا عذاب سہہ رہی ہو تی ہیں،اور کان ہو تے ہیں جو قدرت کی کُن فیکون سے لیکر ان صداؤں کو بھی سن رہے ہو تے ہیں جن صداؤں سے کائینات میں اُتھل پتھل ہو رہی ہو تی ہیں، پر پھر بھی وہ دل، وہ آنکھیں، وہ کان ہواکی ہلکی آہٹ اور ہواؤں کے ہلتے پلڑوں پر جاگ جا تے ہیں۔
ہوا ہر ہلتے در بہت پیچھے رہ جا تے ہیں پر آنکھیں،من،ملول روح اور اداس دل ہلتے رہ جا تے ہیں
جب رات کے آخری پہروں میں پوری دنیا اپنے پیاروں کی بانہوں میں سو رہی ہو تی ہے جب بھی دردسے ماری مائیں اور ملول دل والی بیٹیاں جا گتی رہتی ہیں ان کی نیند ایسی ہو گئی ہے جس نیند کے لیے حسن درس نے لکھا تھا کہ
”گھر تہ ستو آبھاتین سان بھاکریں
اے کھڑکندڑدر
چھو بھلا سمھین نتھو؟“
”گھر تو اپنے گھر والوں کو جھپی پا ر سوگیا
اے ہلتے در
تم کیوں سوتے نہیں؟“

شاید کوئی نہ جانے پر میں ان سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ جن گھروں کی چوکھٹ پر درد آکر بیٹھ جائیں،جن گھرو ں میں درد بچوں کی طرح پلتے ہوں،جن ماؤ ں کے دامنوں سے درد بچوں کی طرح دامن گیر ہوئے ہوں،جن بیٹیوں کے ساتھ درد ایسے نبھا کر رہے ہوں جیسے بڑی بہنیں چھوٹے بھائیوں کے ہاتھ پکڑے چلتی ہوں ان گھروں کی نیندیں ماری جا تی ہیں ان گھروں میں بہنوں،ماؤں،بیٹیوں کی آنکھوں میں نیند کا کوئی بسیرہ نہیں ہوتا ان آنکھوں میں سپنے اور خواب نہیں آتے وہ آنکھیں دن تو دن پر رات میں بھی سفر کو ناپتی رہتی ہیں وہ سفر جس سفر کو پیروں نے طے کیا،دل نے جھیلا اور نم نم آنکھوں اس سفر کو ناپا
روح سے بھی
درد سے بھی
بھیگیں پلکوں سے بھی
اور دل سے بھی
کیوں؟
اس لیے کہ ان کی نیند تو ازل ازل ازل سے ماری گئی ہے!
سسئی ایک طرف اگر ان مسافروں پیروں کے سفر کو کسی پیرا میٹر یا کسی آلہ سے ناپا جائے تو نبیوں کے دردیلے سفر ان پیروں کے سامنے مختصر ہو جائیں اور یہ سفر اتنے طویل ہو جائیں کہ
انہیں کون ناپے
اور کیوں ناپے؟
یہ مسافر مائیں اور بیٹیاں ساتھ میں اُمت نہیں رکھتیں
کہ ان کے سفر کی واہ واہ ہو
یہ تو ساتھ میں درد رکھتی ہیں
اور دردوں کے قریب کون بھٹکتا ہے
دردوں کو اپنا کون کہتا ہے؟
دردوں کو کون ہاتھوں میں لیتا ہے؟
دردوں کو کون دل میں جگہ دیتا ہے؟
دل تو دل پر درد کو تو کوئی دامن گیر بھی نہیں کرتا سب درد سے دامن بچاتے ہیں اور درد مسافر بیٹیوں کے دامن گیر ہو جاتا ہے اور یہ درد سے پلو نہیں چھڑاتیں پر درد کو ایسے ساتھ لیے پھرتی ہیں جیسے وہ جوگیانیاں جو بھیک مانگتے ان بچوں کو لیے پھرتی ہیں جو بچے ان کے میلے پستانوں سے جُڑے رہتے ہیں
یہ بھی درد کی جوگیانیاں ہیں
اور درد ان کے۔۔۔۔۔۔
ایسا نہیں ہے کہ ان کا بس دن ہجر کا ہے
اور ایسا بھی نہیں کہ بس ا ن کی رات دکھ بھری ہے
اور ایسا بھی نہیں کہ ان کی سب صبحیں اور تمام شامیں ہجر کی ہیں
پر ان کا تو ہر ہر پل دردوں سے پُر ہے
جس کے لیے بابا فرید نے فرمایا تھا کہ
”درداں دی ما ری دلڑی علیل اے!“
وہ دردوں کی ماری دلڑی لیے ملول دل سے سفر کرتی ہیں شال کی گلیوں سے لیکر کراچی کی تنگ و تاریک گلیاں اسلام آباد کے ڈی چوک سے لیکر پھر شال کی گلیاں پر پھر بھی ان کی کہانی نہیں سنی جا تی
کیوں؟
ایک خاص مائینڈ سیٹ آصفہ زردا ری اور مریم صفدر کے ٹوئیٹ دیکھ کر انہیں ری ٹوئیٹ تو کرتا ہے
ان بے ہودہ ٹوئیٹوں پر میڈیا میں خبر بھی بنتی ہے
پر سمی کے درد کو الفاظ کیوں نہیں ملتے
راشد کی بوڑھی ماں کے درد پر اخبار کیوں نہیں بھیگتا
اور مسافر ماؤں کے پیروں کے زخموں کو میڈیا پر کیوں کور نہیں کیا جاتا؟
کیا وہ کہانی گر نہیں؟
کیا ان کے پاس کہانی نہیں؟
ان کے ہاتھوں سے تو سب کچھ پھل گیا ہے
بابا کا پیارا ہاتھ بھی
اور بابا کے ہاتھ کا لمس بھی
محبت بھی اور محبت میں دینے والا بوسہ بھی
تو کیا وہ کہانی گر نہیں
یہ تو عظیم کہانی گر ہیں، پر انہیں کوئی سنے بھی تو
میں نہیں
آپ نہیں
انہیں وہ سنیں جہاں کہانیاں براڈ کاسٹ ہو تی ہیں
نشر ہو تی ہیں
اور شائع ہوکر وہاں جا تی ہیں جہاں ان کے لوگ ہیں جن کے ہاتھوں میں ان اداروں کی چابیاں ہیں
یہ میری مائیں۔بہنیں۔بیٹیاں عظیم کہانی گر ہیں
ان کے پاس بیٹھو اور ان کی کہانی سنو
جن کہانیوں میں الفاظ ہیں
بس بھیگی آنکھیں ہیں
دھول آلود پیر ہیں
اور ملول دل!
”جب انسان کے ہاتھوں سے سب کچھ پھسل جاتا ہے تو کہانی اس میں اُمید جگانے آتی ہے
کہانی کو صحیح پیش کر کے کچھ انسان نبی بن گئے اور کچھ ولی!
اور کچھ آسماں والے کے خاص بندے
پر بہت تھوڑے لوگ ہی جان پائے کہ اصل میں تو وہ کہانی گر ہیں
کہانی ہی سنانے آئے ہیں!“
شال کی سرد میں سوتے لوگو!
شال کی سردی میں کافی کا جگ پیتے لوگو
کیا تم جانتے ہو رات شال کی گلی سے کون گزرا؟
”صورتِ ملول مائیں
زندگی،تیرے خواب کا شیشہ ٹوٹا
چاند گہنا گیا تیری دلداری کا
اے عشقِ بتاں
تجھ کو کُجا کیا معلوم
کون سر مست
تیری رات گلی سے گزرا؟“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں