وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ کا کہنا ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کا اپنا وعدہ پورا نہیں کررہے ہیں بلکہ حکومت نے جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے والے قانون میں ایسے شک شامل کئے ہیں جس سے لاپتہ افراد کے اہلخانہ عدم تحفظ کا شکار ہوکر شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہوئے ہیں اس لئے مجوزہ قانون پر اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگی اور اقوام متحدہ سمیت ملکی و بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ مجوزہ قانوں سے وہ شک ختم کیے جائے جس سے لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو تحفظ حاصل نہیں ہوتا اور یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ اگر کوئی مجرم ہے انہیں عدالت کے ذریعے سزا دی جائے جن پر جبری گمشدگیوں کا الزام ہے ان کے دائرے اختیارات کو کم کیا جائے تاکہ پاکستان جبری گمشدگی کی ناسور سے پاک ہو۔
نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ صوبائی حکومت نے 2019 میں ہم سے میڈیا کے سامنے وعدہ کیا کہ سب سے پہلے کئی سالوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائی جائی گی یا پھر ان کے حوالے سے اہلخانہ کو بتایا جائے گا لیکن کچھ لوگ بازیاب ہوگئے لیکن کئی سالوں سے لاپتہ افراد کے حوالے سے خاص مثبت پیش رفت نہیں ہوئی اور رواں سال فروری میں ہماری ملاقات وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید، وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم، وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری، لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس اقبال اور مارچ میں وزیراعظم عمران خان سے ملاقات ہوئی وفاقی سطح پر ہمیں یقین دہانی کرائی گئی کہ لاپتہ افراد کے بازیابی کو مراحلہ وار یقینی بنائی جائی گی پہلے ہمیں کہا گیا کہ ہمارے فراہم کردہ لسٹ کے لوگ چھ ماہ میں بازیاب ہونگے یا پھر انکے حوالے سے اہلخانہ کو معلومات فراہم کی جائے گی اس کے بعد ہم سے کہا گیا کہ دسمبر تک لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائی جائے گی اور وزیراعظم کے معاون خصوصی شازین بگٹی نے بھی یقین دلایا کہ دسمبر تک لاپتہ افراد کے مسلے میں مثبت پیش رفت ہوگی اب دسمبر کا مہینہ ختم ہونے کو ہے لیکن لاپتہ افراد کی بازیابی یقینی نہیں بنائی گئی اور نہ اہلخانہ کو انکے لاپتہ افراد کے حوالے سے معلومات فراہم کی جارہی ہے بلکہ لاپتہ افراد کی بازیابی روک دی گئی اور جبری گمشدگی کے سلسلے میں تیزی لائی گئی۔
نصراللہ بلوچ نے ایک دفعہ پھر صوبائی و وفاقی حکومت سے گزارش کی کی وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا اپنا وعدہ پورا کرکے اذیت میں مبتلا خاندانوں کو زندگی بھر کی اذیت سے نجات دلائی جائے۔