جماعت کے بناوٹتی ترانے – دلجان بلوچ

390

جماعت کے بناوٹتی ترانے

تحریر: دلجان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

‏‎جماعت اسلامی کے پُرکشش اور بناوٹی ترانوں سے مجھے اسکول کے زمانے سے ہی الرجی تھی۔ گھر میں چلنے والے بی ایس او کے ترانے اس طرح ہمارے دل و دماغ میں رچ بس گئے تھے کہ جماعت اسلامی کی دقیانوسی پالیسیوں کو کم عمری میں اچھی طرح سمجھنے لگ گئے تھے۔ کراچی میں تعلیمی اداروں میں جماعت کو خوف کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اگر کسی کا کراچی کے تعلیمی اداروں سے واسطہ رہا ہو تو وہ اس بات کو خوب سمجھ سکتا ہے۔ طلبہ و طالبات کو پریشان کرنے میں خیر ایم کیو ایم کی سٹوڈنٹ ونگ اے پی ایم سو نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر سب جانتے تھے کہ وہ مستقل رہنے والے نہیں مگر جماعتی ہی وہ واحد کرشماتی جماعت ہوتی جو ہر دور میں اپنے ٹھکانے اسی طرح جمائے رکھتے۔

‏‎یہ پاکستان پیپلز پارٹی و ریاستی اداروں کی سرپرستی میں بننے والی لیاری گینگ وار، فوج کے کاروبار کو تحفظ فراہم کرنے والی اے این پی اور مشرف کے لاڈلے متحدہ قومی موومنٹ والوں کی طرح بیجا اسلحے کی نمائش نہیں کرتے، شائد انہیں اپنی طاقت کا اندازہ تھا یا پھر کوئی اور وجہ تھی یا انہیں آقاؤں کی طرف سے ہی یہی ترغیب دی گئی تھی۔ یہ ہر کام میں ہاتھ کی صفائی دکھاتے اور پوری مہارت سے کرتے اور یہی وجہ تھی کہ انکے قاتل بھی پہلی صف میں نماز پڑھا کرتے تھے۔

‏‎یہ اپنی کم تعداد ہونے کے باوجود ہر کام منظم طریقے و بھرپور اہتمام کے ساتھ کرتے۔ جسکی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جماعت کسی کو میمبر بنانے سے پہلے اسکی انویسٹیگیش کرتی اور پھر اسے اپناتی اور دوسری اہم بات انکے لاپتہ کارکنوں اور مارے جانے والوں کے اہلخانہ کو وظیفے ملتے تھے، جس کی وجہ سے جماعت کا تعلق اپنے کارکنوں کے اہلخانہ یا خاندان والوں سے بھی ہمیشہ جُڑا رہتا تھا۔

‏‎جماعت کے کارکن شہری علاقوں میں ہمیشہ ایک ایجنٹ کی سی زندگی گزارتے نظر آتے تھے۔ شریف النفس بننے کا ڈرامہ، سب کے دوست و ہمدرد بننے والے فارمولے کی وجہ سے وہ اکثر علاقوں میں اپنی جگہ بناتے اور اندرونے خانہ رینجرز، پولیس و دیگر اداروں کے لئے ریپورٹنگ کا کام کرتے، اپنے اور ریاست کے مخالفوں کا صفایہ کرنا و کروانا ہمیشہ جماعت کا شیوہ رہا ہے۔ ان سب باتوں کا علم مجھے اس وجہ سے ہوا کہ میری وابستگی اپنی بلوچ قومی تحریک سے تھی۔ جب ہی جماعت اسلامی کی شاطرانہ پالیسیز کو کم عمری میں خوب سمجھنے لگ گئے تھے اور اس بات کا جماعت والوں کو بھی علم تھا کہ ہمارا تعلق بلوچ اسٹوڈنٹ آرگنائیزیشن سے ہے، جب ہی وہ مجھ سے بے حد محبت و شفقت سے پیش آتے اور اکثر بات کو گھما پھرا کر مجھے جماعت میں شامل ہونے کی دعوت دیتے، دعوت دینے والوں میں انکے قتل ہونے والا ایک سینئر کارکن شامل تھا۔ جماعتی کارکن بیقوقت سیاسی کارکن، ٹریننگ یافتہ مجاہد، سماجی کارکن، ملازمت پیشہ اور نہ جانے کون کون سی کرامات رکھتے تھے جو مجھے بذات خود ذرا بھی معمولی نہیں لگتا، مجھے اس بات کا پورا یقین تھا کہ انہیں ریاست کی باضابطہ سرپرستی اور حمایت حاصل ہے۔

جماعت اسلامی اپنی سازشوں کا جال ہمیشہ مظلوم اور غریب لوگوں پر ہی ڈالتی، انڈیا ہمارا دشمن ہے، مسلمان مشکل میں ہیں، اسلام کو خطرہ ہے وغیرہ جیسے منگھڑت الفاظ کا تیر چلا کر پھر مظلوموں کو جہادی مواد فراہم کرکے انہیں جہاد پر جانے کے لئے اکساتی ہے اور ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ کس بے رحمی سے غریب و مظلوموں کی اولادوں کو ذہنی طور پر مفلوج بنا کر مذہب کے نام پر اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے بَلی کا بکرہ بنا دیا گیا۔ جماعت اسلامی کی طویل و نہ ختم ہونے والی سیاست و مذہب کے نام پر جاری مکاریوں پر اگر بات کی جائے تو شائد یہ کالم کو کسی بھی طرح ختم کرنا ممکن نہ ہو مگر میرا مقصد اس مختصر تحریر میں اپنی آنکھوں دیکھے جماعت کچھ واقعات و تجربات کو بیان کرنا تھا، باقی فیصلہ کرنے میں ہر زی شعور بندہ خود آزاد ہے اور نہ ہی میرا اس تحریر کو لکھنے کا مقصد گوادر کے جاری دھرنے سے تھا یا ہے، میرے نزدیک گوادر میں لاکھوں لوگوں کا جمع ہونا جماعت اسلامی کا کوئی کرشمہ یا معجزہ نہیں، بلکہ اس سرزمین پر اپنا پاک لہو نچھاور کرنے والے بلوچ قومی تحریک کے نڈر شہزادے ہیں، جنہوں نے سمندری علاقوں سے لیکر صحراؤں تک، شہروں ست لیکر دیہاتوں تک، میدانوں سے لیکر پہاڑوں تک کو تحفظ فراہم کا ذمہ اٹھا رکھا ہے۔ یہ انہی گمنام سپاہیوں کی مسلسل کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آج بلوچ کا ہر فرزند بیدار و توانا نظر آتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں