بیرک کا سفر بانک کریمہ تک (پہلی قسط) – دروشم بلوچ

290

بیرک کا سفر بانک کریمہ تک
پہلی قسط

تحریر: دروشم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مسلسل فون کی گھنٹی بجنے پر میری آنکھ کھلی تو دیکھا سنگت ماہ گنج کا فون تھا، جیسے ہی میں نے فون دیکھا میں اٹھ گئی، وہ تنظیم کی ایک سینیر سنگت ہے اگر انہوں نے اس وقت فون کیا ہے تو ضرور کوئی ضروری بات ہوگی میں نے آنکھیں ملتے ہوئے جلدی جلدی فون اٹھایا دوسری طرف سے سنگت ماہ گنج کی آواز تھی “کہاں ہو نگار، اپنا فون کیوں نہیں اٹھا رہی ہو؟” وہ ۔۔۔سنگت میں ۔۔۔ میں نے اپنا فقرہ پورا نہیں کیا کہ سنگت نے کہا خیر جانے دو اس بات کو ،میری بات سنو
نگار: جی سنگت ،کہیں کیا بات ہے؟
سنگت ماہ گنج: نگار میں نے تمہیں دو بیرک بنانے کے لیےکہا تھا کیاوہ دونوں بیرک تیار ہو گئے ہیں؟
نگار: جی سنگت وہ دونوں بیرک تیارہیں پر کیابانک کریمہ کی میت کو بلوچستان لے کر آ رہے ہیں؟
ماہ گنج : ہاں سنگت آج شام 3 بجے بانک کریمہ کی میت کو کراچی لا رہے ہیں پھر صبح دس بجے کراچی لیاری میں انہیں مادر وطن کا بیرک اوڑھ قومی اعزاز کے ساتھ وہیں لیاری میں انکی نماز جنازہ ادا کی جائیگی ، نماز جنازہ کے بعد قافلے کی صورت میں ان کو انکے آبائی علاقہ تمپ لے جا کر وہیں انکو سپرد خاک کیاجاۓ گا۔ دونوں بیرک (ایک بلوچستان کا بیرک دوسرا تنظیم بی ایس او آذاد کا بیرک ) تیار ہے تو کسی گاڈی میں مجھے شال بیجھوا دو۔

نگار: سنگت میرے پاس ایسا کوئی انتظام نہیں ہے کہ میں کسی کے ہاتھوں یہ دونوں بیرک شال بیھجوا دوں اور میں ایسے ہی کسی گاڑی والے کے ہاتھوں بیجھوا بھی نہیں سکتی کیونکہ یہ ایک ایسی چیز نہیں بلکہ مادر وطن کا بیرک ہے اگر کسی نے دیکھ لیا تو بہت مسئلہ ہوگا۔

ماہ گنج: صحیح کہہ رہی ہو نگار کسی گاڑی والے کے ہاتھوں بھیجنا خطرے سے خالی نہیں ہے تم ایسا کرو دونوں بیرک تیار رکھو میں کسی کو بھیجتی ہوں تاکہ وہ تم سے دونوں بیرک لے کر مجھے شال بھجوا دے۔

صحیح ہے سنگت کہہ کر میں نے فون رکھ دیا، پھر میں وہیں ساکت کھڑی رہی کیونکہ میری ہوائیاں اس لیے اُڑی ہوئی تھیں کہ اس وقت تک صرف ایک بیرک تو تیار تھا پر دوسرا بیرک (بی ایس او آزاد) تیار نہیں تھا، میں سوچ میں پڑگئی اب کیا ہوگا اس وقت تو میں نے سنگت کو بول دیا کہ بیرک تیار ہے پر اتنی جلدی دوسرا بیرک تیار کیسے ہوگا؟ میں اسی سوچ میں ڈوبی آہستہ استہ واپس کمرے کی طرف چلی گئی اور خاموشی سے بیٹھ گئی۔

بہن پری گل نے مجھ یوں پریشاں دیکھ کر مجھ سے پوچھا کیا ہوا نگار تم کیوں پریشان ہو؟ سب خیر تو ہے؟ انکے یوں پوچھنے پر میں نے اسکو سنگت ماہ گنج سے فون پر ہوئے ساری بات بتا دی اور اپنی پریشانی کی وجہ بھی بتا دی۔ اس نے میری پریشانی کی وجہ سنتے ہی مجھے تسلی دی فکر مت کر نگار جو بندہ بیرک لینے آئیگا اسکو یہاں پہنچتے ہوۓ دو گھنٹے لگیں گے تب تک ہم سب مل کر تماری مدد کرتے ہیں، بس تم جلدی سے کپڑا لے کر آجاو۔

پری گل کی اس بات سے مانو میری جان میں جان آگئی، کیونکہ اگر بیرک تیار نا ہوتی تو میں بد زبان ہوجاتی اور ایک سینر دوست کے سامنے شرمندہ بھی۔ بس میں جلدی جلدی دوسرے کمرے میں چلی گئی اور کپڑا کینچی لے کر واپس آ گئی اور کام کرنا شروع کر دیا۔
اتنے میں سنگت ماہ گنج نے دوبارہ مجھے فون کیا۔

ماہ گنج: سنگت مجھے کوئی نہیں ملا جو بیرک تم سے لے کر بانک کریمہ کی والدہ تک پہنچا سکے۔سنگت اب ایسا کرتے ہیں ہم خود چلے جاتے ہیں کراچی بانک کریمہ کے اسقبال کے لیے ، میں ابھی شال سے نکل رہی ہوں تین سنگت میرے ساتھ ہیں، وہاں سے تم اور پری گل ساتھ چلو ، کراچی میں بانک کریمہ کا اسقبال کر کے وہیں سے انکے قافلے کے سات تمپ جائیں گے بس تم اب تیار ہو جاؤ۔

نگار: میں تیار ہو جاتی ہوں بس یہاں پہنچتے ہی مجھے فون کر دینا، میں نے اللہ حافظ کہہ کر فون رکھ دیا اور پری گل کے پاس آئی اور اسے ساری باتیں بتانے لگی اور اسے کہا کہ تم بھی ساتھ چلو اور اس نے جانے کے لیے ہاں بھی کر دی ۔

پری تو جانے کے لیے مان گئی، پر ابھی امی کو بھی منانا تھا اور سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا۔ میں اور پری نے جاکے امی کو سنگت ماہ گنج کی ساری باتیں بتادیں، امی نے ہماری باتیں سنی اور جانے سے منع کردیا بہت سمجھانے کے بعد آخر امی اس بات پہ راضی ہوئی کہ نا تم لوگوں کا نام میڈیاپہ آئے گا نا ہی تم لوگوں کی کوئی تصویر آئی گی۔

تھوڑی دیر بعد پری میری پاس آئی کہا نگار ہم ایسا کرتے ہیں ہم دونوں پنجگور سے تمپ چلے جاتے ہیں، پنجگور سے راستہ لمبا نہیں ہے ہم ان سے پہلے تمپ پہنچ جائیں گے اور وہیں پر بانک کا استقبال کریں گے ۔

میں نے پری سے کہا نہیں ہم کراچی جائیں کیونکہ بانک پر بیرک ڈال کر انکو قومی اعزاز کراچی میں دی جاۓ گی اور یہ میری دلی خواہش ہے کہ میں نے اپنے ہاتھوں سے جو بیرک بانک کے لیے بنایا ہے وہ بیرک بانک پے ڈالا جاۓ۔ پری نے کہا چلو پھر کراچی ہی چلتے ہیں، مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کراچی کا یہ سفر اتنا مشکل ہوگا۔

خیر ہم تیار ہوکے تین بجے ایک انجانے ا اور تکلیفوں سے بھری اک تاریخی سفر کے لیےگھر سے نکلے۔

کراچی تک سفر خیریت سے گزری ہم رات 1.00 بجے کراچی پہنچ گیے ایک سنگت ہمیں لینے آیا ہوا تھا جب ہم اس سنگت کے گھر پہنچے تو کچھ دوست پہلے سے ہمارے انتظار میں وہاں بیٹھے ہوۓ تھے ہم لوگوں نےکھانا کھایا اور پھر پوسٹر لکھنے لگے اتنے میں کسی نے سنگت ماہ گنج کو باہر بلایا تھوڑی دیر بعد پری گل کو بھی باہر بلایا کافی دیر تک وہ باتیں کر رہے تھے، باتیں کرتٕے وقت اُن دوستوں میں ایک بے چینی سے پائی جارہی تھی۔

ایسا لگا کوئی پریشانی والی بات ہے ہم بس پریشان بیٹھے انہیں دیکھ رہے تھے نا انھوں نے ہمیں بتانے کی زحمت کی نا ہم نے ان سے پوچھنے کی ہمت، اپنی بات ختم کرنے کے بعد وہ لوگ جلدی جلدی آئے اور کہا سب تیار ہو جاو ہمیں ایرپورٹ جانا ہے ہم سب تیار ہونے چلے۔ اتنے میں سنگت ماہ گنج نے مجھےبلایا اور کہا نگار تم دونوں بیرک مجھ دیکھا دو میں نے دونوں بیرک سنگت ماہ گنج کو دیکھائےسنگت نے دیکھنے کے بعد وہ دونوں بیرک میری ہاتھوں میں دی اور کہا یہ تمھاری زمہ داری ہے بانک کے والدہ کے ہاتھ میں دینا۔

اس وقت سب سنگتوں میں زمہ داریاں بانٹی جارہی تھیں تاکہ بانک کا آخری استقبال اچھے سے ہو ،اس وقت میں نے خوشی سے دونوں ہاتھ بیرک کے لیے آگے بڑھائے کہ کسی دوسری سنگت نے مجھ سے پہلے ماہ گنج کے ہاتھوں سے وہ دونوں بیرک لے لیں اور کہا یہ زمہ داری میں لیتی ہوں نگار کوپوسٹر سنبھالنے کی زمہ داری دو ۔مجھے اس سنگت کی یہ حرکت بہت بُری لگی پر میں نے لحاظ کرکے اس وقت خاموشی سے اپنےغصے پر قابو کیا اور وہاں سے چلی گئی۔

ہم سب ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہوئے ہمیں ائیرپورٹ جلدی پہنچنا تھاکیونکہ ٣ بجنے میں بہت کم وقت رہ گیا تھا کافی دیر چلنے کے بعد سب کو تھکن محسوس ہو رہی تھی تو ایک سنگت نے بولا کریم کرتے ہیں، سب نے کریم کے لیے حامی بھری، لیکن سنگت ماہ گنج نے کہا کچھ لڑکیاں رکشے میں جایں، کریم میں جگہ نہیں ہوگی تو اس وقت سب سے آگے ہم وہ چار لڑکیاں ساتھ کھڑے تھے جو کراچی شہر سے بلکل واقف نہیں تھے سنگت ماہ گنج نے ہمیں رکشے میں بٹھایا اور رکشے والے کو سمجھایا کہ انکو ائیرپورٹ کے فلان گیٹ پر اتارنا۔

رکشے والے نے ماہ گنج کے بتائے ہوۓ جگہ پر ہمیں اتار دیا یہ ائیرپورٹ کا وہ گیٹ تھا جہان سے لوگ اندر جا رہے تھے ہم رکشے سے اتر کر گیٹ کی طرف جانے لگے کہ گیٹ کےپاس کھڑے گارڈ نے ہمیں روک کر پوچھا اندر کیوں جا رہے ہو؟ ہم نے جھوٹ بول دیا کہ ہمارے رشتہ دار دوبئی سے آرہے ہیں، ہم ان کو لینے جا رہے ہیں۔

گارڈ نے کہا اندر صرف ایک ہی بندہ جا سکتا ہے کرونا کی وجہ سے زیادہ لوگوں کو اندر جانے کی اجازت نہیں ہم پریشان ہوگئے کہ کیا کریں تو پری گل نے کہا میں اندر چلی جاتی ہوں مجھے ماما قدیر سے ضروری بات کرنی ہے میں نے پری سے پوچھا کیا بات کرنی ماما سے ، تو پری نے کہا ایک مسئلہ ہوگیا ہے، بانک کریمہ کے گھر والےلیاری میں بانک کریمہ کی نماز جنازہ پڑھنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں اب ماما قدیر ہی انکو راضی کر سکتا ہے لیاری کے لیے۔

کافی دیر بعد سنگت ماہ گنج نے مجھے فون کیا پوچھا کہاں ہو تم لوگ؟ میں نے سنگت ماہ گنج کو بتایا ہم فلاں گیٹ پر ہیں، پری گل کو اندر جانے دیا گیا ہے اور ہمیں باہر روک کے رکھا ہے اندرجانے نہیں دے رہے اپ لوگ کہاں ہو؟

ماہ گنج نے کہا نگار ہم تو ایئیرپورٹ کے اندر پہنچ گئے ہیں۔ ہمارے پاس ایک ٹکٹ تھا، اس وجہ سے ہمیں اندر جانے دیا۔ جب میں نے سنگت ماہ گنج کی یہ بات سنی تو میرا دماغ خراب ہوگیا ، کیا کہہ رہی ہو سنگت آپ سب لوگ اندر ہو اب ہم یہاں کیا کریں گے؟ اور دوسری بات آپ نے ہمیں اس گیٹ سے بھیجاطاور خود دوسرے گیٹ سے چلے گئے۔

تیسری بات اگر آپ لوگوں کے پاس ٹکٹ تھی تو ہمیں کیوں نہیں دیا؟ میں نے غصے میں آکر فون بند کردیا ۔سنگت ماہ گنج نے دوبارہ فون کیا مجھے کہا نگار تم غصہ مت کرو میں تمیں وہ ٹکٹ بھیجتی ہوں تم لوگ کریم بُک کر کے ایئیرپورٹ کے فلاں گیٹ سے آو ، اسے ہاں کہہ کرمیں نے اپنا فون بند کردیا ۔

ہم نے کریم کو فون کیا، کریم نہیں ملا تو ہم ائیرپورٹ کے دوسری طرف پیدل چلنے لگے جب ہم اس گیٹ پہ پہنچے گارڈ نے پھر اندر جانےنہیں دیا ٹکٹ دکھانے کےباوجو د ہمیں اندر نہیں چھوڑا ۔ سنگت ماہ گنج بار بار فون کر رہی تھی فلان گیٹ سے آجاو ہر گیٹ پر ہمیں واپس کر دیا گیا اندر جانے نہیں دیا گیا۔

رات سرد ہوتی جارہی تھی اوپر سے ہمارے پاس کافی سامان بھی تھا، دن بھر کا سفر ، پیدل چل کے ہماری حالت خراب ہوگئی تھی، پھر ہماری حالت سب سے زیادہ اس بات سے خراب تھی کہ اب بانک کریمہ کا استقبال بھی نہیں کر پائیں گے ۔ ہم نے سوچا یہاں رکنے کا کوئی فاٸدہ نہیں ہم واپس گھر چلے جاتے ہیں ہم انہی باتوں میں تھے کہ سنگت ماہ گنج نے فون کیا نگار تم ایسا کرو واپس گھر چلی جاو، یہ سنتے ہی میں نے ان سے کہا سنگت اس سے بہتر نہیں کہ ہم واپس شال چلے جائیں؟ سنگت ماہ گنج نے نہیں ایسا نہ کرو تم شال مت جاو یہ ہے وہ ہے بس میں نے فون بند کر دیا مجھے اتنی بری لگی انکی یہ بات کہ گھر چلے جاو ۔۔۔ اگر گھر جانا ہی تھا تو میں انکے ساتھ آئی کیوں؟ اگر انہیں میری زمہ داری نہیں اُٹھانی تھی تو مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کیوں کہا میں وہیں روڈ پے بیٹھی رونے لگی ۔

ماہ گنج نے پری کو فون کیا کہ نگار واپس شال جا رہی ہے اسے فون کرکے روک لو ۔ پری نے مجھے فون کیا اور تسلی سے اندر ہوۓ سارا معاملہ سمجھایا۔ نگار تم لوگ کہیں مت جاو بلکہ ماما قدیر بھی ابھی تک یہاں نہیں آیا ہے اور وہ فلان گیٹ پے تم لوگوں کا انتظار کر رہے ہیں۔

ہم واپس اسی گیٹ کی طرف چلے، جہاں سے پری اندر چلی گئی تھی ۔ جب ہم وہاں پہنچے تو ماما کو دیکھ کر ہماری جان میں جان آگئی اور ماما وہاں ایک وین کے سامنے کھڑا تھا انکے ساتھ حوران اور دو عورتیں بھی تھے، ماماقدیر نے بتایا کہ اندر جانے کی صرف انکو اجازت ملی ہے انکے باقی دوستوں کو جانے نہیں دیا گیا ہے تو ماما اپنے دوستوں کے بنا اندر نہیں گئے، ہم سب وہیں بیٹھ کر انتظار کرنے لگے ۔

ماما قدیر نے ہمیں بتایا کہ بانک کریمہ کا جہاز ابھی نہیں آیا ہے اور ناہی انکے گھر والے ائیرپورٹ آئے ہیں اتنے میں دو پنجابی نیوز رپورٹر ماما کے پاس آۓ اور ماما قدیر سے کہا کہ بانک کی جہاز تو آچکی ہے پر ریاست بانک کریمہ کے میت کو انکے گھر والوں کو بھی نہیں دے رہی ہے، تاکہ بانک کی میت کو لیاری نا لے جا سکیں اور جلسے جلوس نا ہوں۔

میں نےجیسے ہی انکی بات سنی تو پری کو فون کیا کہ پری اصل مسئلہ بانک کے گھر والے نہیں بلکہ ریاستی ادارے کر رہے ہیں، تو پری نے کہا ہاں صیح کہہ رہی اور بانک کی بہن بھی یہاں آچکی ہے پر انکو بانک کی میت نہیں دے رہے ہیں انکا کہنا ہے وہ بانک کی میت کو انڑنیشنل کارگو کے زریعے سیدھا تربت بھیج رہے ہیں، اسکے لیے وہ بانک کی بہن کو زبردستی ان سرکاری کاغذات پر دستخط کروا رہے ہیں، جس کے زریعے وہ بانک کی میت کو کارگو میں لے جاسکیں پر بانک کی بہن اس بات کے لیے نہیں مان رہی انکا کہنا ہے وہ اپنے بہن کی میت کو بذریعہ روڈ تمپ لے جانا چاہتی ہے۔

میں نے ماما کو ساری بات بتا دی اور فوارً انٹرنشنیل کارگو کی طرف روانہ ہوۓ لیکن ہم غلط جگہ پہنچے، میں نے دوبارہ پری کو فون کیا اس نے مجھے صحیح جگہ بتایا۔

جب ہم وہاں پہنچے تو کارگو جانے والے رستے کو پولیس نے مکمل طور پر گھیرے میں لے لیا تھا اور کسی کو اندر جانے نہیں دے رہے تھے، اب ہم سب وہیں انتظار کرنے لگے اتنے میں ہمارے سامنےسے ایک گاڑی گزری گی جس میں بانک کی میت رکھی ہوئی تھی۔ جلدی جلدی ہم نےبانک کی بہن کو فون کیا تو اس نے بتایا کہ ریاست نے بانک کریمہ کی میت کو اس شرط پر ان کے گھر والوں کے حوالے کیا ہے کہ وہ اسے لیاری نہیں لے جائیں گے اور اس وقت ہم پولیس کے سخت تحویل میں سیدھا تمپ کے لیے روانہ ہو گئے ہیں۔

سنگت ماہ گنج نے کہا ہم میں سے کچھ سنگت انکے پیچھے پیچھے چلتے ہیں لیکن پری نے کہا ایسا کرنا ٹھیک نہیں، ہم سب پہلے لیاری میں بانک کا غاٸبانہ نماز جنازہ پڑھتےہیں، پھر وہیں سےتمپ کے لیے نکلیں گے۔

پوری رات انتظار کرنے کے بعد صبع ٦ بجے کے قریب ہم اٸیرپورٹ سے لیاری کیطرف روانہ ہوگئے اور اس جگہ گئے جہاں پر دس بجے بانک کا نماز جنازہ ادا کرنا تھا پر اس جگہ کو بھی پولیس نے مکمل طور پر گھیر لیا تھا ۔

جب ہم تمپ کے لیے روانہ ہوئے تو مسلسل یہ خبریں آرہی تھیں کہ بانک کریمہ کا کاروان ابھی فلان جگہ پر پہنچی ہے ،فلان شہر کے لوگوں نے انکا استقبال کیا ہے ،لیکن سب سے اہم اور پریشانی والی خبر یہ تھی کہ تربت اور تمپ میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے فون نیٹورک بھی بند کردیا ہے مقامی لوگوں کو بانک کے گھر تک جانے نہیں دیا جارہا۔ بانک کے قبر تک کو کھودا گیا ہے تاکہ ریاست بانک کو رات کے اندھیرے میں دفنا دے اور بلوچ قوم اس عظیم بیٹی کے نمازہ جنازہ میں شامل بھی نا ہوسکے ۔

ہمیں پتہ تھا کہ تربت میں کرفیو نافذ ہے ہر جگہ فوجی ناکہ بندی ہے لیکن ہمیں جانا تھا ہمیں بانک کو بیرک پہنچانا تھا بلوچ قوم کے اس عظیم بیٹی کو سلامی دینی تھی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں