بلوچ لبریشن آرمی فورسز پر حملوں کا ذمہ دار ہے، تنظیم کیخلاف کاروائی کرینگے – سی ٹی ڈی

798

سی ٹی ڈی بلوچستان کے ترجمان کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ رات تقریباً 8:45 پر کوئٹہ شہر میں اسپنی روڈ پر پولیس موبائل کی گاڑی پر دستی بم سے حملہ کیا گیا جس میں دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں، جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کرکے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔

ترجمان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی ذمہ داری بی ایل اے نے قبول کر لی ہے، شواہد سے بھی ان کا دعویٰ قابل اعتبار لگتا ہے۔ بی ایل اے ہی بلوچستان میں خدمات انجام دینے والے پولیس افسران کے خلاف جرم کی ذمہ دار ہے سی ٹی ڈی کی ٹیمیں ان حملہ آوروں کے شہری مراکز اور پہاڑوں میں پیچھا کرکے ان کے ٹھکانے تک پہنچے گی۔

ترجمان نے کہا ہے کہ انہیں قانون کے شکنجے میں لیکر ان کے خلاف ان کے جرائم کے مطابق مقدمہ چلایا جائے گا۔

گذشتہ رات دارالحکومت کوئٹہ میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی، میڈیا کو ارسال کیے گئے بیان میں ترجمان جیئند بلوچ نے کہا کہ قابض پاکستان کے پولیس فورس کی گاڑی کو دستی بم حملے میں نشانہ بنایا، سرمچاروں کے حملے میں تین پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔

بی ایل اے ترجمان نے کہا کہ بلوچ لبریشن آرمی بلوچستان پر قابض فوج، اسکے مقامی ایجنٹوں و تنصیبات پر اس وقت تک شدت کے ساتھ حملے جاری رکھے گی، جب تک قابض پاکستانی فوج بلوچستان پر اپنا ناجائز قبضہ ختم کرکے مکمل انخلاء نہیں کرتا۔

فوٹو: بی ایل اے میڈیا

خیال رہے سی ٹی ڈی بلوچستان میں اس وقت شدید تنقید کی زد میں ہے۔ سی ٹی ڈی کاروائیوں میں پہلے سے لاپتہ افراد کو قتل کرنے کے شوائد سامنے آنے کے بعد سیاسی و سماجی حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔

سی ٹی ڈی نے گذشتہ مہینے مستونگ میں کاروائی کے دوران بی ایل اے کے 9 ارکان کو مارنے کا دعویٰ کیا جبکہ بی ایل اے نے مذکورہ دعوے کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ تنظیم مزید یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ ان 9 بلوچوں میں سے کسی کا بھی تعلق بلوچ لبریشن آرمی سے نہیں تھا۔ مذکورہ افراد نہتے عام بلوچ تھے، جنہیں مختلف مواقع پر قابض پاکستانی فوج اور اسکے خفیہ اداروں نے اغوا کرکے لاپتہ رکھا ہوا تھا۔ اب ان لاپتہ بلوچوں کو جعلی مقابلوں میں شہید کرکے بی ایل اے کے ارکان ظاہر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

دوسری مذکورہ مارے جانے افراد میں سے ایک کی شناخت پہلے سے جبری طور پر لاپتہ شخص یار محمد ولد ڈاڈا خان نام سے ہوئی تھی  جس کو مارچ 2016 میں کوئٹہ سے حراست میں لیا گیا تھا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اخترجان مینگل نے گذشتہ مہینے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پہلے لوگوں کو فوج مارتی تھی، اب نام تبدیل کرکے سی ٹی ڈی رکھا گیا ہے۔