بلوچ سیاست اور بڑھتے تضادات
تحریر: شوہاز بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
دنیا میں جتنے بھی عوامی انقلاب آئے یا مذہبی اور سیاسی تبدیلیاں رونماء ہوئی ہیں ان کے اسباب کسی نہ کسی طرح سماج میںموجود تضادات رہے ہیں۔ افغانستان میں جب سردار داؤد بیک وقت افغان فوجیوں کو ٹرینگ کیلئے سویت یونین اور حکومتی انتظامیہکے لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے امریکہ بھیج رہا تھا تو اُس کا خیال تھا کہ میں دنیا کی بڑی طاقوں کو استعمال کر رہا ہوںمگر افغانستان میں اس کی وجہ سے جو نظریاتی تضادات جنم لے رہے تھے اُس کاانہیں خیال نہیں آیا۔ اس کا اندازہ انہیں اُس وقتہوا جب افغانستان میں بیک وقت، کٹر اسلامی نظریات کے قبائلی لوگ، سوشلسٹ فکر سے وابستہ فوجی اور کیپٹلسٹ سوچ کےحامیسرکاری آفسران کا مقابلہ ہوا اور پھر افغانستان میں کیا ہوا اس کی تاریخ گواہ ہے۔
وقت کے ساتھ سماجی تبدیلیاں بھی کبھی نہیں رُکتے ،چاہے سماج ایک شدید جنگ کی لپیٹ میں کیوں نہ ہو مگر سماجی تبدیلیاںہوتی رہیں گی اور یہ کہنا کہ سیاست میں ایک قوت ہمیشہ کیلئے رہے گا یہ احمقوں کی جنت میں رہنے والی بات ہوگی۔
فلسطین میں 1976 کے وقت پی ایل او جیسی ترقی پسند تنظیم تحریک کی قیادت کر رہی تھیں اور اسرائیل کے خلاف فلسطین کیآزادی کے لیے اپنے تحریک اور تشدد کو وہ جس اندازمیں دفاع کرتے تھے وہ آج بھی اپنی مثال آپ ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھفلسطینی تحریک تو ختم نہیں ہوئی مگر اب جنگ حماس جیسے ایرانی پراکیسی گروپس کے ہاتھوں آ چکا ہے ۔ یعنی کہ ایک ترقیپسند تحریک و قت کے ساتھ حماس جیسے پراکیسی اور انسان کش تنظیموں کے ہاتھوں آ گئی۔مختصریہ ہے کہ سیاست میںتضادات کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے اگر تضادات کو درگزر کرکے” صرف سب کچھ اچھا ہے” کہ بنیاد پر سیاست کی جائے توسیاسی زوال مقدر بن جائے گی ۔
اسی نقطہ نظر میں ہم بلوچستان کی ہی بات کریں۔ ایک وقت تھاجب سردار بلوچ سیاست اور تحریک کے سیاہ اور سفید کے مالکتھے مگر اسی سماج اور تحریک کے اندر سرداریت اور انفرادیت بنیادوں پر سیاست اور تحریک کو چلانے کے خلاف سوچ پیدا ہوئی اور آج تحریک سے سرداریت کو رد کیا گیا اور بالآخر ایسے سردار جو ایک طرف سے سیاسی اور دوسری جانب سرداری ایک ساتھچلانے کی کوشش کر رہے تھے ان کے پاس نا سرداری رہ گئی اور نا ہی سیاست۔ کہنا کا بنیادی مقصد کہ عوام بنیادی طور پر ہمیشہایسی قوت کے ساتھ ہی جائے گی جو عین عوامی تقاضوں کی بنیاد پر سیاست کریں ۔
بلو چ گزشتہ بیس سالوں سے جنگ زدہ ہے۔ دنیا کی سنگین ترین مظالم بلوچوں نے دیکھی ہے۔ یہ آ ج کی بات نہیں بلکہ مری بگٹی اورجھالاوان کے علاقوں میں لوگ پانچ چھ دہائیوں سے ان حالات سے گزر رہے ہیں مگر ہمیشہ وقت کے گزرنے کے ساتھ زمینی حقائق بھیتبدیل ہوئے ۔ لیکن سیاست قطعی طور پر بھی خواہشات کے مطابق نہیں ہوتی بلکہ اس کیلئے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہےاور زمینی حقائق کو سمجھنا ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں گوادر میں اٹھنے والی عوامی تحریک نے ایک طرف سے ہزاروں لوگوں کو نئی امیددی ہے کہ لوگ اپنی معاشی ضروریات، عزت و آبرو، کاروبار اور حقوق کیلئے گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آ رہے ہیں مگر دوسریجانب کچھ لوگوں کیلئے یہ پریشانی کا بھی باعث بن رہا ہے کہ مکران جیسے علاقے میں جماعت اسلامی کی جڑیں کہیں مضبوط نہہوں۔ ہمارا نیشنلسٹ طبقہ جو پاکستانی پارلیمنٹ میں موجود ہے یا یورپ اور خلیجی ممالک میں ، وہ آج بھی بلوچستان کو 2006کےتناظر میں دیکھ رہے ہیں لیکن آج حالات وہ نہیں ہیں۔ آج کے بلوچ سیاست میں تضادات کو سمجھنا ہوگا اگر آج کے بلوچ سیاست میںموجود تضادات کو سمجھے بغیر جس طرح فیسبک اور ٹوئٹر کے ذریعے بلوچستان میں انقلاب لانے کی کوشش ہورہی ہے اس سے نہصرف بلوچ تحریک کی مظبوط حصے کو کمزور کیا جائے گا بلکہ یہ دیگر بہت سی ناکامیوں کا سبب بھی بنے گا۔
بیس سال پہلے بلوچستان میں لوگوں کی معیشت کسی حد تک ان کے اپنے ہاتھوں میں تھا۔ مگر آج فوج نے پوری معاشی نظام اپنےکنٹرول میں رکھی ہے۔ زمینداری، ماہی گیری ، بارڈر سمیت تمام کاروباری نظام فوج نے اپنی ہاتھوں میں لیا ہے۔ جس کےاثرات اببلوچ سیاست میں آنا شروع ہوگئے ہیں ۔ بقول مارکس کائنات کی ہر شئے کا تعلق معاشی نظام سے ہے۔ اس معاشی تعلق کے اثرات بلوچ سماج میں جس تیزی سے بڑھ رہے اس کو سمجھنا ہوگا ۔آج اس کو سمجھےبغیر بلوچ قومی تحریک کو ترقی دینا کسی بھیصورت ممکن نہیں ہے ۔
آج ریاستی فوج نے لوگوں کے تمام معاشی ضرورتوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا ہے تاکہ لوگ اس فوج سے جڑ جائے ۔باڈر کے ٹوکن سسٹمسے تقریباً ہزاروں لوگ ایک عام ایف سی کی سپاہی کی محنت و سماجت میں مصروف ہوتے ہیں ، ہزاروں لوگ ایک ٹوکن کے لیےریاستی فوج سے اپنا تعلق بنارہے ہیں ۔اسی طرح ماہی گیری سے لیکر زمینداری تک ہر چیز کیلئے ریاستی فوج لوگوں کو اپنے ساتھمنسلک کرنے کے لیے کاروبار پر شدید قسم کی پابندیاں عائد کررہا ہے ۔ ریاستی فوج بلوچستان کی معاشی نظام کو اپنے کنٹرول میںرکھ کر نہ صرف لوگوں کو اپنے ساتھ جوڑ رہا ہے بلکہ اپنے لیے ایک منظم پیداواری سسٹم قائم کرچکا ہے جس سے روزانہ کروڑوں کیآمدنی ہورہی ہے۔
جبکہ دوسری جانب ان عوامی مسائل کو سمجھا ہی نہیں جارہا ہے جو بلوچ سیاست میں ایک تضاد کی صورت موجود ہے۔اسصورتحال میں ایک جانب پارلیمنٹ کے قوم پرست ہیں، جنہیں قوم پرست کہنا شاید مناسب نہیں ہوگا، بلکہ یہی وہ لوگ ہیں جو کچھفنڈز اور مرعات کے عوض اپنا سب کچھ بھیج دیتے ہیں، یہاں تک کہ اپنی ضمیر تک بھی گروی رکھتے ہیں۔ ان سے یہ توقع رکھنا کہیہ لوگ بلوچوں کے زندگیوں سے لیکر روزگار تک کی حفاظت کرینگے یا اس کے لیے ریاست اور فوج سے لڑینگے یا قربانی دیں گے ، یہانتہا درجے کی حماقت ہوگی۔کیونکہ ان جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہمیں ریاست سے کسی بھی طرح کے ٹکراؤ کی طرف نہیں جاناہے بلکہ اُس حد تک ہی بات کرنا ہے کہ مقتدرہ قوتیں ناراض نہ ہوں اور مرعات حاصل کرنا کا سلسلہ جاری رہے ۔( واضح رہے کہ ہماس پارلیمانی گروپ کو ڈسکس کررہے ہیں جس سے کچھ سنجیدہ لوگوں نے توقعات رکھے ہیں کہ یہ گروپ پارلیمنٹ میں ہونے کےباوجود کچھ بلوچ مسئلے پر سنجیدہ ہے۔ آپ اندازہ لگائے جس کو ہماری سنجیدہ حلقہ سنجیدہ قرار دہے رہی ہےیہ
لوگ بھی معمولی مراعات کے لیے اپنا ضمیر سے لیکر ایمان سب کچھ گروی رکھ رہے ہیں تو باقیوں پارلیمانی گروپس کی کیا حالتہوگی) جبکہ دوسری جانب بلوچ قومی تحریک کے سیاسی پارٹیاں آج کے اس تضاد کو سمجھنے کے بجائے اپنی تمام تر توانیاں اسبات پر خرچ کررہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے انقلاب لایا جائے گا۔اس بات سے انکار نہیں ہے کہ میڈیا کی سرگرمیاں تنظیم اورپارٹیوں کے لیے ضروری ہوتے لیکن قومی تحریک کی کامیابی میڈیا کو فعال کرنے سے نہیں ہوتا بلکہ اپنے آپ کو عوام سے جڑےرکھنے سے ہوتا ہے۔
اگر آج گوادر سے انتائی چھوٹے شہر میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مولانا ہدایت الرحمان کے پیچھے نکل رہی ہے تو اس سے ثابتہوتی ہے کہ ہم بلوچ سماج میں موجود تضاد کو سمجھنے میں ناکام ہے اور یہ فطرت کا اصول ہے کہ جس دو چیزوں کے درمیان تضادموجود ہوتی ہے اس میں ایک کی عروج اور دوسرے کی زوال لازمی ہے۔ اگر آج بلوچ قومی تحریک سے وابستہ سیاسی پارٹیاں بلوچ کیسماجی اور معاشی مسائل کو واقعی مسائل سمجھتے اور ان مسائل قومی مسئلے کے ساتھ منسلک کرتے تو آج مولانا کے بجائے بلوچقومی تحریک سے وابستہ سیاسی پارٹیاں بلوچ عوام کی قیادت کررہے ہوتے ۔آج بھی کچھ خشک زہین کے سیاسی کارکنان اوردانشوروں کا خیال ہے کہ اگر مولانا کے بدلے کوئی بلوچ قوم پرست ایسی بات کریں تو وہ اٹھایا جائے گا یا مار دیا جائے گا تو عرضہے کہ کیا مرنے یا اٹھائے جانے کے ڈر سے قوم کی نمائندگی فیسبک ٹوئٹر، یا چھپ کر صرف بیانات سے ممکن ہے ؟ کیا اخباریبیانات اور سوشل میڈیا سے عوام تحریک کے ساتھ جڑ جائے گی ؟ پنی ناکامیوں اور کمزوریوں کی دفاع کرنے سے تحریک ترقی نہیںکرتی بلکہ زوال کی جانب سفر کرتی ہے۔
آج یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ اگر لوگ مولانا کا ساتھ دے رہے ہیں تو اس میں مولانا کی جماعت اور نظریہ کی صفر برابر کرداربھی نہیں ہے بلکہ مولانا کے اس موقف کا کردار ہے جس نے بلوچ سیاست کی اس خالی جگہ کو پُر کیا ہے اور لوگوں کے بنیادیمسائل پر دو ٹوک بات کررہا ہے۔ مولانا بھی اس بات بخوبی سمجھتا ہے کہ میں نے بلوچ سیاست کی اس خالی جگہ کو پُر کیا اسلیے لوگ میرے ساتھ کھڑے ہیں ۔ اس لیے اب تک مولانا نے اس دھرنے کو اپنے جماعت سے جوڑنے کی غلطی نہیں کی ہے ورنہ سیاستمیں پوائنٹ اسکورنگ کا موقع کون گنوانا چاہے گا۔ مولانا اس تحریک کو اپنی جماعت سے جوڑکر جماعت اسلامی میں ایک اچھا مقامبھی پیدا کر سکتا ہے لیکن اب تک انہوں نے یہ غلطی نہیں کی ہے اگر جس دن مولاناا نے یہ غلطی کی تو مولانا کی حالت بھی سوشلمیڈیا کے لیڈروں اور دانشوروں سے کچھ اچھا نہیں ہوگا۔ لیکن دوسری جانب جو بلوچ قومی تحریک سے وابستہ لوگ مولانا کی پروگرامپر تنقید کر رہےہیں انہیں اپنی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کے متعلق سوچنا ہوگا کہ آیا جس طرح ہم نے عوام کے بنیادی مسائل کودرگزر کرکے قومی مسئلے کے ساتھ منسلک نہیں کیا اور ساتھ میں یہ امید بھی کر رہے ہیں کہ عوام ہمارے کہنے پر لبیک بھی کہیںکیا ایسا ممکن ہے؟۔
گوکہ جدوجہد جاری ہے، قربانیاں دی جا رہی ہیں سختیاں بھی برداشت کی جا رہی ہے لیکن سیاست اور کسی بھی تحریک کیکامیابی کیلئے بہت سی لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے۔بلوچستان اس وقت شدید ابہام کی کیفیت میں ہے۔ ایک طرف مظالم تو دوسریطرف معاشی قتل و غارت کا سامنا کر رہی ہے۔ ایک طرف ریاستی ٹارچر سے لاشیں اٹھا رہی ہے تو دوسری جانب لوگ بھوک سے بھیمر رہے ہیں۔ ان کی عزتیں بھی محفوظ نہیں ہیں، روزانہ تذلیل کا بھی سامناکرتے ہیں، ہر وقت خوف و وحشت سر کے اوپر منڈلارہا ہوتاہے، ذہنی تکالیف کا سامنا کر رہے ہیں ۔اس بلوچ عوام کو ایسی سیاسی قیادت اور جماعت کی ضرورت ہے جو ان کے مسائل کو قومیمسائل سمجھے اور ان پر بات کریں ۔ اگر آپ عوام کے بنیادی مسائل کو مسائل سمجھ کر قومی مسئلے کے ساتھ جوڑے گے تو لوگآپ کے ساتھ کھڑے ہونگے اگر اس کے برعکس آپ عوام کے مسائل کو درگز کرکے اپنے آپ کو عوام سے دور رکھو گے تو اس نتیجہصرف یہ ہوگا کہ عوام آپ کو رد کریں اور اپنے لیے نئی جماعت اور قیادت کا چناؤکریں ۔