بانک کریمہ کی پہلی برسی کے موقعے پر کوئٹہ میں سیمینار اور خاران میں کینڈل واک منعقد کیا گیا – بلوچ وومن فورم

456

بلوچ وومن فورم کی جانب سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 21 دسمبر کو شہید بانک کریمہ بلوچ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کوئٹہ پریس کلب میں سیمینار کا انعقاد کیا گیا، سیمینار میں لوگوں کی بری تعداد نے شرکت کرکے بلوچ جہدوجہد میں بانک کریمہ بلوچ کی بے مثال قربانیوں کو سلام پیش کیا ۔

بلوچ وومن فارم کی جانب سے خاران میں بھی بانک کریمہ کی جدوجہد اور قربانوں کی  یاد میں کینڈل واک کیا گیا جس میں خواتین نے کثیر تعداد میں شرکت کی اور شرکاء نے شمعیں روشن کرکے بانک کریمہ کو خراج عقیدت پیش کیا۔

سمینار میں مہمان خصوصی بلوچ دانشور دین محمد بزدار تھے۔ سیمینار کے آغاز میں بانک کریمہ کی سیاسی زندگی پر ڈوکیومنٹری پیش کی گئی اور بلوچ دانشور محمد علی تالپور صاحب کا ویڈیو پیغام پیش کیا گیا جس میں محمد علی تالپور نے کہا کہ ایک دن میں کوئی کریمہ نہیں بن سکتی بلکہ بہت سی مشکلات اور قربانیوں سے گزرنا پڑھتا ہے۔ انہوں نے کہا کریمہ کا خون ہم پر قرض ہے اس قرض کو اتارنے کا سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ بلوچ ایک ہو اور اپنے حق کی کے لیے بولے جدوجہد کرے۔

بلوچ دانشور دین محمد بزدار نے بلوچستان کی محکومیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچوں نے جب بھی اپنے حق کی بات کی انہیں انڈین ایجنٹ کے خطاب سے نوازا گیا۔ انہوں نے بانک کریمہ کے والدین کو خراج تحسین پیش کی کہ انہوں نے ایک ایسی بہادر اور نڈر بیٹی کو جنم دیا جس نے اپنے بلوچ معاشرے کے لیے آواز بلند کی اور بلوچ خواتین کو قومی جہدوجہد کی طرف راغب کیا ۔

سیمینار میں بلوچی زبان کے مصنف پروفیسر رحیم مہر بلوچ نے کریمہ بلوچ کی ادبی کردار پر روشنی ڈالی انہوں نے بانک کی لکھی ہوئی آزمانک ( افسانہ) کا خلاصہ پیش کیا جس میں بانک کریمہ نے بلوچستان کے گمشدہ افراد کی کہانی پیش کی تھی۔

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے ڈپٹی آرگنائزر رشید کریم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا ترقی کر چکی ہے مگر ہم اب تک لاشیں اٹھا رہے ہیں انہوں نے نوجوانوں سے کہا کہ چاہے وہ جس بھی پارٹی یا تنظیم سے ہو مگر قومی مفاد کو کسی بھی مفاد پر ترجیح نہ دیں اور بانک کریمہ بلوچ نے جس مقصد کے لیے جہدوجہد کی ہمیں اداروں سے بالاتر ہوکر اس مقصد سے منسلک ہونا ہوگا ۔

بلوچ سیاسی جہدکار ڈاکٹر مارنگ بلوچ نے کہا کہ کوئی بھی لفظ، کوئی بھی جملہ کریمہ کے کردار کو بیان نہیں کر سکتا، یہ بانک کی جدوجہد کا اثر ہے کہ آج گوادر سے لے کر ڈیرہ جات تک عورتیں سماج کی بیڑیوں کو تھوڑ کر باہر نکل رہی ہیں یہ عورتیں اپنے لیے اپنے قوم کے لیے نکل رہی ہیں۔ جب تک عورت سماج کو اپنا نہیں سمجھ سکتی وہ تب تک ترقی نہیں کر سکتی۔

انہوں نے کہا کریمہ بلوچ جہدوجہد کی ایک نئی تاریخ ہے اور میں خوش قسمت ہوں کہ میں اس عہد کا حصہ ہوں جس عہد میں کریمہ کی لاش نے بھی مزاحمت کی۔

سیمینار میں پی ٹی ایم کی پشتون رہنما وڈنگا لونی نے کریمہ بلوچ کی جہدوجہد اور انکی انسانی خدمت کو خراج عقیدت پیش کیا. انہوں نے کہا بلوچ پشتون غلام قومیں ہیں ہم اپنی محب وطنی کی جتنی بھی قسمیں کھایں اس پر یقین نہیں کیا جاتا۔ بلوچ پشتوں رہنماوں کی جدوجہد پر روشنی ڈالی اور تاریخی حوالے دیا کہ ہماری ایک وسیع تاریخ ہے ہمیں کوئی یہ ہرگز نا بتائے کہ اپنی سرزمیں اپنے قوم کی حفاظت کیسے کریں۔ انہوں نے کہا جب پاکستان نہیں تھا بلوچ پشتون سرزمین تھے اور بلوچ پشتون اپنے سرزمین کے سنبھالنے کے لائق تھے ۔

وڈنگا لونی نے مزید کہا ہمارا جو استحصال ہو رہا ہے اس کو روکنے کے لیے نشنلسٹ سیاست کرنی ہوگی اور اپنے صفوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔

سیمینار میں بی ایس او کے جنرل سیکرٹری عظیم بلوچ نے کہا کہ بانک کی زندگی اور جہد ایک کھلی کتاب ہے۔ بانک ایک ایسے شہر سے باہر نکل کر اپنے جدوجہد کا آغاز کرتی ہے جہاں ایک ڈنگ کا اسکول بھی نہیں ملے گا، بانک کریمہ نے بلوچستان کے ایسی حالت میں سرخ بیرک ہاتھ میں لے کر باہر نکل کر جدوجہد کی ہے کہ اس وقت انکے تمام ساتھی لاپتہ کر دیے گئے انکی مسخ شدہ لاشیں ملی مگر اس کے باوجود کریمہ نے وہ سرخ جھنڈا گرِنے نہیں دیا۔

سیمینار کے اختتام میں  بلوچ وومن فورم کی آرگنائزیر زِین گل بلوچ نے کریمہ کو خرج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ خواتین کو یہ سمجھنا ہوگا کہ قومی زمہ داری اور معاشرتی ترقی صرف بلوچ  مردوی کی زمہ داری نہیں بلکہ خواتین کو اپنی سماجی اور ایسی زمہ داریوں کا ادراک کر کہ جہدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔