بانک کریمہ سے ہم کلامی ۔ کٹگان بلوچ

304
آرٹ: صدف اقبال بلوچ

بانک کریمہ سے ہم کلامی

تحریر: کٹگان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سادگ بلوچ: کیسے ہو دوست؟
کٹگان بلوچ: ۔۔
سادگ بلوچ: کٹگ جانی کیا ہوا ہے آپ کو، بات ہی نہیں کر رہے ہو مجھ سے۔ آج تم تو بات کرنے کو بھی تیار نہیں، مجھ سے ناراض ہو کیا ؟ یار رات گئی بات گئی۔
کٹگان بلوچ: ناراض نہیں ہوں میرے درویش و صوفی دوست۔ کچھ لکھ رہا ہوں پل ء بانک کی شہادت پر لیکن ہاں کل رات مجھ سے زیادہ آپ غصے میں تھے۔ ہر رات ایک ہی فلسفہ کہ راستہ ایک ہی ہے۔
سادگ بلوچ: میں تو آج تک اسی فلسفے کو مانتا ہوں۔
کٹگان بلوچ: تم پھر سے شروع ہوگئے، اب نہیں، رات کو بات کرتے ہیں کیونکہ میں بانک کی عظیم قربانیوں کے اعتراف میں کچھ لکھنے بیٹھا ہوں ۔
سادگ بلوچ:،ٹھیک۔۔۔۔۔
کٹگان بلوچ: ‏‎دل تو لکھنا بہت کچھ چاہتا ہے لیکن میرے پاس ہمیشہ سے مضبوط اور مناسب الفاظ کی کمی رہی ہے، کچھ الفاظ ہیں لیکن وہ بھی بہت ہی کمزور ہیں۔ یہ کمزور اور بے وزن الفاظ بانک کے کردار کے ساتھ انصاف کرنے کا حق بھی نہیں نبھا سکتے۔
لیکن کیا بانک آپ کو علم ہے کہ یہ نیا انقلاب لانے والے الفاظ مجھے کہاں سے ملے ہیں، کارپٹ اور جفت بیچنے والوں سے۔
آپ شاید اس بات کو سنتے ہوئے ہنستے بھی ہونگے ضرور کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ کارپٹ والے اور جفت والے تو ایک وقت تک کاروبار میں ملوث تھے اور نیند میں تھے اور ایسے لوگوں کا سب کچھ زندگی میں کاروبار و آرام تھا لیکن بانک میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ لوگ بدل گئے ہیں اور اپنے کاروبار اور نیند کو خدا حافظ کر چکے ہیں اور اب قوم کے لوگوں کو دھیرے دھیرے اچھے لگنے لگے ہیں۔

اب یہ لوگ مجھے بھی اچھے لگتے ہیں کیونکہ محبت، زندگی کی اہمیت، انسانیت خطرے میں ہے حقوق انصاف، اور سچے دل سے قوم کے لئے ان کے آنسو نکلتے ہیں اور زم زم بن جاتے ہیں اور اب قوم کو بھی شعور آگیا ہے کہ اس طرح کے علم اور فلسفوں سے منزل دور نہیں۔ مجھے علم ہے کہ یہ لوگ اب نیند سے اٹھے ہیں کاش کہ آپ یہاں ہوتے اور دیکھ کر کتنا خوش ہوتے کہ منزل اب اور دور نہیں۔

دراصل منزل کا راستہ یہیں سے شروع ہوکر پھر مغرب کی طرف جاتا ہے اور بعد ازاں قومی منزل پہنچ جائے گا لیکن ہاں مناسب وقت اور جدوجہد کا تقاضہ اب بھی ہے۔ آپ لوگوں کا منزل تو گوراج کا دشت تھا یعنی شمال کا راستہ صرف شمال کا راستہ اور کوئی راستہ نہیں آپ لوگوں نے ہی تو ہمیں شعوری طور پر جہد کار بنایا لیکن جو لوگ دوسری طرف ہیں وہ کہتے ہیں کہ راستے بہت ہیں مغرب، جنوب ، مشرق اور بہت سے دوسرے راستے، یہ لوگ باتیں کرتے ہیں بحث کرتے ہیں بلکہ باور کرانے کو مثالیں بھی دیتے ہیں۔ جیسے کہ گاندھی کا فلسفہ ، ہندوستان کو کیسے اس کے منزل تک پہنچا دیا، جرمنی کا فلسفہ، شمال کا فلسفہ اور بہت سارے واقعات وغیرہ۔

کاش آپ لوگ ہوتے کتنا اچھا ہوتا لیکن آپ لوگ تو آزاد ، قمبر اور بالاچ اور ناجانے کتنے دوسرے اسی طرح کے فلسفے کے دیوانے تھے۔
آجکل ہمارے قوم کو ایسے لیڈرز ملے ہیں جو بہت ہی پرسکون اور خاموش مزاج کے شخصیت ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ یہ خدا کی طرف سے ہم پر بھیجے گئے ہیں اور ہمیں منزل تک لے کر جائیں گے کیونکہ اب تو ہمارا ایمان بھی اسلامی ہے قومی روایات کی باتیں جو کل تک ہوتی تھیں آج نہیں ہو رہی ہیں جیسے کہ آپ لوگوں کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ ابھی تک میرا ناشاد دل کہتا ہے کہ کاش کہ آپ یہاں ہوتے اور دیکھتے کہ اور بھی راستے ہیں۔لیکن آپ نے تو بھگت کی طرح وہی فلسفہ اپنایا وہ بھی اپنے قومی روایت کے مطابق اور آج بھی ان کے اثرات ہمارے اجتماعی شعور پر نقش ہیں۔

بانک آپ کو ہم سے جدا ہوئے ایک سال کا عرصہ پورا ہوا، سوچا کہ آپ کو لکھوں، آپ کو اپنی سناؤں، اپنے دکھ بتاوں لیکن پھر سوچوں میں پڑ جاتا ہوں کہ کیا لکھوں، الفاظ ساتھ ہی نہیں دیتے۔
بس اتنا لکھوں گا اس بار میں آپ کی شہادت پر قربان، میں آپ کی ہمت حوصلے اور بہادری پر قربان۔
تم مسکرا دو تو ویرانوں میں چراغ روشن ہو جائیں
تم مسکرا دو تو بنجر زمین آباد ہو جائے
تم مسکرا دو تو گلابوں سے خوشبو مہک جائے
تم مسکرا دو تو گوراج کے دشت میں بہار آجائے
تم مسکرا دو تو ہم فدائی بن جائیں
تم مسکرا دو ہم آخری گولی کے شہزادے بن جائیں
تم مسکرا دو توبسارے خشک چشمے خوشی سے پھر پانیوں سے بھر جائیں
تم مسکرا دو تو سارے بےخبر باخبر ہوجائیں۔
تم مسکرا دو تو سارے بے شعور باشعور ہوجائیں
تم مسکرا دو تو سارے وقتی اندھے، اندھے نہ رہیں

بانک میں جانتا ہوں کہ آپ کی خوشی اپنی جگہ لیکن آپ مطمئن بلکل بھی نہیں ہونگے کہ مجھے یاد تو کر رہے ہو لیکن بلوچی کے بجائے دوسروں کے زباں میں ۔ اگر آپ زندہ ہوتے اور پتہ چلتا کہ میں نے آپ کے کردار پر کچھ لکھا اور وہ بھی کسی اور زبان میں، اس سے آپ کی نہ خوشی میں اور اضافہ ہوتا کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی آپ پر کٹگان بلوچ نے چند الفاظ لکھے ہیں لیکن وہ بھی دوسروں کے زبان میں۔ آپ اپنی مادری زبان کی ثانوی حیثیت دئے جانے پر مجھ پر سخت برہم ہوتیں۔

بانک آپ نے تو ہمیشہ صرف اور صرف اپنے ہی قومی زبان کو دل سے عزت دی اور اسے دل و جان سے چاہا دوسرے زبانوں کو ہمیشہ ثانوی حیثیت دی، انہیں فقط اس جگہ استعمال کیا جہاں عین ضروری ہو اور یہی اظہار کرتے رہے کہ ہم صرف ہم ہیں اور ہم ہر ایک کو سمجھائیں گے، انہیں باور کرائیں گے۔

بانک اب آپ ہمیں دیکھیں ، ہم دوسرے زبانوں کی عزت کر رہے ہیں اور اپنی زباں کو دوسرا درجہ دیا ہوا ہے۔

کچھ لوگ بضد تھے اور ہیں کہ آپ کا یہ سوچنا اور اسی فلسفہ کا پرچار غلط تھا کہ اولیت اپنی زبانوں کو دی جانی چاہئیے، وہ اب بھی کہتے ہیں کہ کریمہ کے راستے کا چناو نہ کرو اس کی پیروی مت کرو وہ بہت سو کو کہتے ہیں کہ اچھا ہوا کہ تم نے کریمہ کی پیروی نہیں کی کیونکہ اس کا راستہ تباہی لے کر آتا ہے، لیکن ہم جانتے ہیں بانک کہ آپ کا فلسفہ ایک کامل فلسفہ ہے ایک عظیم خواب ہے، وہ نام نہاد قومی لیڈر اب بھی کہتے نہیں تھکتے کہ دنیا کو دیکھو، اس کی بناوٹی خوبصورتی کو دیکھو، وہ کہتے ہیں کہ اس نظام میں انصاف اور حق موجود ہے اس کو دیکھو اور بہت ہی اس طرح کے خواب دکھائے جاتے ہیں۔

بانک آج ہر طرف غریبی، مفلسی ،اور ہر طرف غربت کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔چرواہے بکریوں کو چروانے پہاڑوں میں لے جاتے ہیں اور کچھ تو واپس سلامتی سے لوٹ کر نہیں آتے، دشمن ہمارے لوگوں کو مار کر کچھ کو تو چھوڑتے ہے اور اگر بہت ہی غصے میں ہوتے ہیں تو پھر کسی کو بھی نہیں چھوڑتے ایسے ہی ایک واقعے ایک خاندان کے لوگ اسی طرح لکڑی کاٹنے کٹگان کے پہاڑوں میں پہنچے تھے اور صرف دو لوگ لوٹ کر واپس آئے۔

بانک میں خیالوں میں گم پتہ نہیں کیا کیا لکھ گیا، اس وقت کہ جب میں آپ سے ہم کلام ہوں تو کھڑکی سے آفتاب کی پھوار ہو رہی ہے صبح ہونے کو ہے میں آپ سے اجازت چاہوں گا لیکن اگر زبنہ رہا تو آپ سے پھر کبھی ضرور ہم کلام ہوں گا۔ یہ میرا آپ سے وعدہ رہا، شاید آپ پریشان ہوں کہ ایسا میں کیا کرنے جارہا ہوں کہ زندہ نہ رہوں، لیکن میں کچھ ایسا بلکل بھی کرنے نہیں جا رہا کہ میری جان کو یا دوسرے دوستوں کی جان کو دشمن سے خطرہ ہو ۔ درحقیقت آج کل لوگ بہت مر رہے ہیں خدائی موت سے ، مادی موت سے ،کیمیائی موت سے، حادثاتی موت سے لیکن اس میں اکثر دشمن کا کوئی ہاتھ نہیں اصل میں یہ سب کچھ وہ کر رہے ہیں جو خود کو ہمارے بھائی کہتے ہیں، وہ جو نسلا بلوچ ہیں لیکن ان کے اعمال بلوچیت سے کوسوں دور ہیں۔

سادگ بلوچ: یہ لو چائے اور اب آرام کرو۔ کئی گھنٹوں سے لگاتار لکھ رہے ہو۔
کٹگان بلوچ: بہت بہت شکریہ صوفی ، مکمل ہوگیا۔
سادگ بلوچ: مبارک ہو آپ کو۔
کٹگان بلوچ: تم ہر وقت بات کرتے ہو کہ صرف باتیں ہی نہیں بلکہ عمل بھی کرو۔تم نے کچھ لکھا ہے یا پہلی بار کی طرح کچھ نہیں۔اگر تم کچھ لکھتے بھی ہو تو وہ بھی کچھ مردوں اور شہیدوں پر لیکن مجھے دیکھو، میں ہر کسی پر لکھتا ہوں اور ایک ہفتے پہلے پوراس سٹی میں جو تباہیاں ہوئی تھی ان پر بھی میں نے دل سے بہت لکھا۔ دوست ناراض نہ ہونا آپ لوگوں کا فلسفہ خود غرض فلسفہ ہے اور تم دراصل مردگ پرست ہوں۔

سادگ بلوچ: کٹگان بلوچ مردگ پرست یا شہید پرست ؟
کٹگان بلوچ: اب تمھاری بحث واپس شروع ، یار مجھے سونا ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ تمھاری بحث بہت دور تک جائے گی، ہاں سونے سے پہلے بس اتنا کہوں گا کہ میں مردگ پرست نہیں شہید پرست ہوں۔جو وطن کے لئے شہید ہوگا۔ہر کسی کو ایک نا ایک دن ضرور مرنا ہے لیکن شہید ہونے والے بہت ہی خاص لوگ ہوتے ہیں اور ایسے لوگ مجھے دل سے عزیز ہوتے ہیں۔ایک فرد اپنی پوری زندگی وطن کے لئے قربان کرتا ہے اور دنیا کی عارضی اور فطری خوبصورتی کو بھی قربان کر جاتا ہے اور کچھ لوگ قومی قربانی میں تو حد ہی پار کرتے ہیں کہ اپنے بچوں کو جس کے قومی مستقبل کے لئے قربان ہو رہے ہیں کو بھی قربان ہونے کے لیے شعوری طور پر تیار کرتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں