بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی ترجمان نے کہا کہ دس دسمبر انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر جرمنی اور نیدرلینڈز میں پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں ہونے والی بلوچ نسل کشی و سفاکیت کےخلاف مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں بلوچ شہدا اور جبری گمشدہ افراد کی تصاویر اٹھائے نعرہ بازی کی اور مقامی لوگوں میں پمفلٹ تقسیم کیے۔
ایمسٹرڈم میں احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم ہالینڈ زون کی صدر کیا بلوچ نے کہا کہ آج ہم انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر یہاں اکھٹے ہوئے ہیں تاکہ دنیا کو یہ دکھایا جا سکے کہ بلوچستان میں ایک انسانی بحران پیدا ہوا ہے۔ بلوچوں کو ان کے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ بلوچ گزشتہ سات دہائیوں سے جینے کا حق مانگ رہے ہیں۔ آج گوادر میں ہزاروں لوگ صرف عزت کے ساتھ جینے کا حق مانگتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ دنیا بھر میں آج انسانی حقوق کا دن منایا جا رہا ہے لیکن بلوچستان میں جبری طور پر لاپتہ کیے گئے افراد کے اہل خانہ آج بھی سراپا احتجاج ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ عالمی برادری بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیں۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم نیدرلینڈز کے سینئر رکن، عبدالغنی بلوچ نے کہا: “ہم یہاں اپنے حقوق کے لیے اکھٹے ہوئےہیں۔ ہماری جدوجہد بھی اپنے حقوق کی جدوجہد ہے۔ ان حقوق کے لیے آج دنیا بھر میں یہ دن ”انسانی حقوق کے عالمی دن“ کے طور پر منایا جارہا ہے۔
مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بی این ایم ہالینڈ زون کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری منور بلوچ نے کہا کہ ہمارے مظاہرے کا مقصد دنیا کو بتانا ہے کہ ہم بلوچ بھی اسی خون اور گوشت کے انسان ہیں۔ ہمارا صرف یہی مطالبہ ہے کہ ہمیں جینے کا حق دیا جائے۔ بی این ایم کے ممبر عمران حکیم بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دو دن پہلے مغربی بلوچستان میں دو جبری لاپتہ افراد کی لاشیں پھینک دی گئی ہیں۔
جرمنی کے شہر مونسٹر میں احتجاجی مظاہرے سے بی این ایم کے ارکان جبار بلوچ، جاسم بلوچ، بدل بلوچ، امجد بلوچ اور بی آر پی کے عبدالجلیل بلوچ نے مظاہرین سے خطاب کیا۔
جبار بلوچ نے کہا کہ پاکستانی فورسز بلوچستان میں سیاسی اور سماجی کارکنوں کا اغوا، گمشدگی اور ٹارگٹ کلنگ کر رہے ہیں۔ پاکستانی فوج کی تمام چھاؤنیوں میں ٹارچر سیلز موجود ہیں۔ لوگوں کو اغوا کرکے سالوں سال وہاں رکھا جاتا ہے۔ جیسے ڈاکٹر دین محمد اور ذاکر مجید بارہ سالوں سے پاکستانی فوج کے خفیہ زندانوں میں ہیں۔ اسی طرح بے شمار خواتین اور بچے بھی۔ سندھی قوم کے بھی آزادی پسند فرزند ٹارچر سیلوں میں ہیں۔ گذشتہ دو دہائیوں میں بلوچستان اور سندھ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔ مختلف طبقہ فکر کے ہزاروں لوگوں کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا گیا ہے۔
جاسم بلوچ نے کو شہدا کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس دن کے موقع پر ہم دنیا سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمیں آزادی دلانے میں کردار ادا کریں تاکہ ہم دنیا کے دوسری قوموں کی طرح زندگی گزار سکیں۔ ہم پاکستان کے زیر قبضہ روزانہ کی بنیاد پر لاشیں اٹھا رہے ہیں۔
بی آر پی کے عبدالجلیل نے مظاہرین سے خطاب میں کہا کہ میں پاکستان کی جانب سے ڈھائی جانے والی مظالم کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ ہزاروں لاپتہ کئے گئے ہیں۔ دنیا کی خاموشی کی وجہ سے پاکستان کو جرائم میں استثنیٰ حاصل ہو گیا ہے۔ عالمی طاقتیں اور عالمی میڈیا بلوچستان کو نظرانداز نہ کریں کیونکہ ہم وہاں اپنے پیاروں کو کھو رہے ہیں۔
بدل بلوچ نے بانک کریمہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان بھی کوئی حقوق رکھتا ہے۔ لیکن افسوس ہم ایک ایسے ملک کے غلام ہیں کہ وہ کسی بھی عالمی قانون کی پیروی نہیں کرتا۔ دوسری طرف دنیا بھی پاکستان کی دہشت گردی کو دیکھ کر خاموش ہے۔ بلوچوں کی دیہاتوں کو جلا کر انھیں وہاں سے جبری نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ہم اس پروگرام کو بانک کریمہ کے نام کرتے ہیں کہ انہوں نے تحریک کو ایک نیا شکل دیا اور بلوچ خواتین اس تحریک میں شامل کرایا۔ بانک کریمہ نے اپنی خون اور قربانی سے بلوچوں کو ایک حوصلہ اور جذبہ عطا کی ہے۔
امجد بلوچ نے بانک کریمہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک سال سے ہم سے جسمانی طور پر جدا ہوگئے ہیں لیکن اس کی قربانی ہمارے لیے مشعل راہ ہیں اور ہمارے ساتھ ہیں۔ بلوچستان کے ہر کونے میں اس نے قومی آزادی کا پیغام پہنچایا ہے اور اپنے جیسے کئی کریمہ پیدا کی ہیں۔ ان کا نظریہ ہماری رہنمائی کرے گا۔ ان کا مقصد پورا کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہم ستر سالوں سے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ پاکستانی فوج ہمیں ایک انسان تصور نہیں کرتی۔ دنیا میں انسانی حقوق کی کئی قوانین موجود ہیں لیکن بلوچستان میں وہ ناپید ہیں۔