اقوام متحدہ کا افغان طالبان پہ ستر سے زیادہ افراد کو ماورائے عدالت قتل کرنے کا الزام

542

اقوام متحدہ نے منگل کو کہا کہ اسے اگست میں طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد افغانستان میں 100 سے زیادہ سابق افغان نیشنل سکیورٹی فورسز کے اہلکار اور ان سے متعلقہ افراد کے ماورائے عدالت قتل کے مستند الزامات موصول ہوئے ہیں جن میں سے بیشتر طالبان نے خود قتل کیے ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی نائب سربراہ ندا الناشف کا کہنا تھا کہ ’طالبان کی 15 اگست کے بعد سے عام معافی کے باوجود اموات کی خبر ان کے لیے خاصی پریشان کن ہے اور 100 سے زیادہ ہلاکتوں میں سے 72 کو طالبان سے منسوب کیا جا رہا ہے۔‘

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ندا الناشف کا کہنا ہے کہ ’کم ازکم 50 مشتبہ داعش خراسان کے ممبران بھی طالبان نے قتل کیے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ان میں آٹھ افغان ایکٹوسٹ اور دو صحافی بھی شامل ہیں، یہ واقعات اگست کے بعد کے ہیں اور ان میں 59 لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے حراست میں بھی رکھا گیا۔ طالبان نو عمر لڑکوں کو بطور سپاہی بھی بھرتی کر رہے ہیں۔‘

ندا الناشف نے جنیوا میں ہیومن رائٹس کاونسل کو بتایا: ’افغان ججز، پراسیکیوٹرز، وکلا اور خاص طور پر خواتین وکلا کی حفاظت خاص طور پر تشویش کا باعث ہے۔‘
روئٹرز کے مطابق اقوام متحدہ میں کابل کے سابقہ حکومت کے دوران تعینات ہونے والے سفیر ناصر احمد اندیشہ نے ہیومن رائٹس کونسل کو بتایا: ’طالبان کے کابل پر فوجی قبضے کے ساتھ نہ صرف ہم دو دہائیوں کی پیش قدمی کو مکمل طور پر ضائع ہوتے دیکھ رہے ہیں بلکہ یہ گروپ بد سلوکی کا ارتکاب بھی کر رہا ہے جو بہت سے معاملات میں غیر رپورٹ شدہ اور غیر دستاویزی طریقے سے ہو رہا ہے۔‘

انہوں نے جینیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کو بتایا: ’اگست اور نومبر کے درمیان ہمیں سابق افغان قومی سلامتی فورسز اور سابق حکومت سے وابستہ دیگر افراد کے 100 سے زائد ہلاکتوں کے قابل یقین الزامات موصول ہوئے جن میں سے کم از کم 72 ہلاکتیں طالبان سے منسوب ہیں۔

’کئی واقعات میں لاشوں کو سرعام دکھایا گیا، اس سے آبادی میں بڑے پیمانے پر خوف و ہراس پھیلا۔‘

 یہ بیان اس ماہ کے اوائل میں ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ کے بعد سامنے آیا جس میں طالبان کی جانب سے 47 لوگوں کو پھانسی دینے کی اطلاعات پر امریکہ اور دوسرے ممالک نے شدید مذمت کی۔

اس بیان میں کہا گیا کہ وہ ہلاکتیں افغان قومی سلامتی فورسز کے سابق ارکان، دیگر فوجی اہلکاروں، پولیس اور انٹیلی جنس ایجنٹس کی تھیں، جنہوں نے اگست کے وسط سے اکتوبر تک طالبان فورسز کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے یا انہیں پکڑا لیا گیا۔

طالبان کے ترجمان قاری سید خوستی نے ماورائے عدالت  قتل کے بارے میں رپورٹ اور دیگر دعووٰں کو قطعی طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ’شواہد پر مبنی نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ سابقہ افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز کے ارکان کے کچھ واقعات سامنے آئے ہیں جو مارے گئے ہیں لیکن یہ ’ذاتی مخالفتوں اور دشمنیوں‘ کی وجہ سے ہے۔

اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان نے ہمسایہ ملک افغانستان کو درپیش بحران کے پیش نظر اسلامی تعاون تنظیم کا اجلاس 19 دسمبر کو اسلام آباد میں بلانے کا اعلان کیا ہے۔

اجلاس میں یورپی یونین کے وفد کے ساتھ ساتھ پی فائیو ممالک کو، جن میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین شامل ہیں، بھی دعوت دی گئی ہے۔