بلوچ نیشنل موؤمنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ نے 13 نومبر یوم شہدا کی مناسبت سے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ خان محراب خان کی کم ترحربی سازوسامان اور کم وسائل اورمحدودافرادی قوت کے باوجود طاقتور دشمن کے سامنے بہادری اور مزاحمت کی مثال قائم کرنا قبضہ گیریت کے خلاف آخری دم تک لڑنا وطن کی عظمت پر مرمٹنے کی علامت ہے۔
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا خان محراب خان کے تاریخی اقدام نے نہ صرف سرزمین کی حفاظت، قومی بقا کی جدوجہد کے لیے بلوچ قوم میں ایک نئی روح پھونک دی بلکہ دنیا کے دیگر مظلوم و محکوم اقوام کو یہ باور کرایا کہ قبضہ گیریت کے خلاف مفاہمت قبضے کو مذید دوام بخشتی ہے، جبکہ مزاحمت ہی قبضہ گیریت سے نجات کا واحد راستہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انیسویں صدی میں استعماری طاقتوں کا دور تھا، جنہوں نے تیسری دنیا کے ممالک کو اپنی طاقت کے بل بوتے پر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ ہندوستان، چین، افریقی ممالک میں برطانیہ نے اپنے خونی پنجے گاڑ دیں۔ ہندوستان پرقبضے کے بعد برطانیہ کو یہ خوف لاحق ہوا کہ روس افغانستان کے راستے ہندوستان میں داخل ہونا چاہتا ہے تو انہوں نے بلوچستان پر چڑھائی کردی۔ اس حملے کے خلاف خان محراب خان نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مزاحمت کرکے جام شہادت نوش کی اور بلوچ قومی تاریخ میں امر ہوگے۔
.
چیئرمین خلیل بلوچ نے کہا برطانیہ نے بلوچستان پر قبضے کے بعد سنڈیمن کی فارورڈ پالیسی اور یکطرفہ معاہدات کے ذریعے بلوچ سماج کی ارتقا سست کردی اور اپنی سازشوں کے ذریعے بلوچ سماج میں مختلف سماجی بیماریوں کو جنم دیا، جن میں وراثتی سرداری نظام، قبائلی فرقہ واریت کے ذریعے بلوچ سماج کے قدیم رواداری اورترقی پسندانہ سوچ کو شدید نقصان پہنچایا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان کبھی ہندوستان کا حصہ نہیں تھا بلکہ بلوچستان قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ پر مشتمل ایک ملک تھا جسے انگریز سرکار نے قبضے کرلیا اور آزادی کے نو ماہ بعد پاکستان کے جھولی میں ڈال دیا تاکہ پاکستان کے ذریعے اس خطے میں قائم اپنی بادشاہت کو قائم رکھ سکے۔
بی این ایم کے چیئرمین نے آخرمیں کہا کہ خان محراب خان کی مزاحمتی جدوجہد اور شہدا کی قربانیاں بلوچ وطن کے دفاع کے لیے تھیں جو ہمیں درس دیتے ہیں کہ قومیں مرنے سے ختم نہیں ہوتیں بلکہ قربانی کے فلسفے پر کاربند رہ کر ہی زندہ رہ سکتی ہیں۔ اس مزاحمتی جدوجہد نے بلوچ قوم کو تاریخ میں ایک زندہ قوم کی حیثیت دلائی۔ یہی مزاحمتی جدوجہد ہی بلوچ قومی تحریک آزادی کی کامیابی کی ضامن ہے۔اس موقع پر ہمیں آدراک کرنا چاہئے کہ قومی آزادی کی جدوجہد مصائب و مشکلات کا نام ہے اور ان مصائب کو ہر روز تمام تر دشواریوں کے ساتھ برداشت کرنا پڑتا ہے کیونکہ قومی آزادی کا عمل صبر آزما عمل ہے نہ کہ ایک ہی جست میں منزل میں پہنچنے کا نام ہے۔ اگرہم شہدا کے نقش قدم پرگامزن رہے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں اپنی منزل پانے سے نہیں روک سکتا ہے۔