ہمت و امید کا نام ڈاکٹر صبیحہ بلوچ ۔ ظہیر بلوچ

400

ہمت و امید کا نام ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

تحریر:ظہیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی بلوچستان کے طول و عرض میں بلوچ طلباء و طالبات کے لئے ایک امید کی کرن بن کر طلوع ہوئی. دو ہزار آٹھ بلوچستان کے طالب علموں کے لئے ایک تاریک اور بدترین دور کا آغاز تھا. جب بلوچستان کے مختلف علاقوں تربت، پنجگور، کوئٹہ، خضدار، مستونگ، قلات، ڈیرہ بگٹی اور دیگر کئی علاقوں سے بلوچ طالب علموں کی جبری گمشدگی کا آغاز کیا گیا. سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ سیاسی تنظیم سے تعلق رکھنے والے بلوچ طالب علموں کی جبری گمشدگی اور شہادت کے واقعات رونماء ہوئے.

بلوچستان کے مختلف تعلیمی ادارے فوجی چوکیوں کا منظر پیش کرنے لگے، سیاسی سرگرمیوں پر قدغن عائد کی گئی. بلوچستان کے طالب علموں کی اولین امید بی ایس او آزاد کو کالعدم قرار دیا گیا. کالعدم قرار دینے کے بعد کریک ڈاؤن میں تیزی لائی گئی.

بلوچستان کے طلباء و طالبات کی امیدیں ماند پڑگئیں کیونکہ اب سیاست کے میدان میں کوئی ایسی امید موجود نہ تھی جو بلوچ طالب علموں کے امیدوں کو ایک مرتبہ پھر زندہ کرسکیں.

بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا قیام بھی ایک ایسے وقت میں آیا جب بلوچ طالب علموں کو ایک ایسے پلیٹ فارم کی ضرورت تھی جو تعلیمی، سماجی، ثقافتی، معاشرتی تربیت کا مقصد لئے بلوچ طالب علموں کو مقصد کا تعین کرسکے اور یہ تنظیم بہت حد تک اپنے اس مقصد کے حصول میں کامیاب نظر آئی ہے. 2009 سے لے کر 2018 تک بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کا باقاعدہ تنظیمی ڈھانچہ تو موجود نہیں تھا، پانچ رکنی کابینہ ہی تمام امور کو چلاتی تھی. بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی اسوقت صرف چند شہروں تک محدود تھی لیکن 2018 میں رشید کریم کی سربراہی میں باقاعدہ ایک منظم و تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ ایکشن کمیٹی سامنے آئی اور مختلف شہروں میں تنظیمی سیٹ اپ کا قیام عمل میں لایا گیا. ہزاروں مشکلات کے باوجود اسٹوڈنٹس کمیٹی اپنے مقصد کے حصول میں سرگرداں رہی اور بعض حد تک کامیاب بھی رہی.

اس بارہ سالہ طویل جدوجہد میں تنظیم آج بلوچ طالب علموں کے لئے ایک امید اور تعلیمی اداروں میں طالب علموں کی موثر آواز کے طور پر متعارف ہوئی ہے. ان تمام کامیابیوں میں تنظیمی ذمہ داران اور کارکنان کی محنت، لگن اور جدوجہد شامل ہے.

ان کرداروں میں ایک کردار ڈاکٹر صبحیہ، بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی چیئرپرسن ہے جو نہایت ہی کم سیاسی عرصے میں بلوچستان کے طالب علموں کی امید اور ہمت بن گئی ہے.

ڈاکٹر صبحیہ بلوچ، شہید لمہ وطن بانک کریمہ کے بعد دوسری بلوچ خواتین ہے جو بلوچستان کی سب سے متحرک تنظیموں کی سربراہی کا شرف حاصل کرچکی ہے. ایک وقت تھا کہ جب بلوچستان میں بلوچ خواتین پر سیاست کے دروازے بند تھے لیکن شہید کریمہ کی شمولیت، جدوجہد اور ذمہ داریوں نے کئی خواتین کو سیاسی عمل میں متحرک کیا.

اپنے قبائلی و خاندانی روایات، فرسودہ نظام کے خلاف جدوجہد، سیاسی عمل کا حصہ بننا بلوچ خواتین کے لئے بے حد کھٹن اور مشکل مرحلہ ہوتا ہے اور اس تمام عمل میں کئی مصیبتوں سے گزرنا پڑتا ہے. شہید بانک کریمہ جلاوطنی پر مجبور ہوئی، انہیں سیاسی عمل سے نکلنے کے لئے گھر پر چھاپہ مارا گیا اور کئی طریقوں سے انہیں زد کوب کیا گیا لیکن بانک ڈٹی رہی اور امر ہوگئی.

سیاسی جدوجہد کے جرم میں قید و بند کی صعوبتیں، ذہنی دباؤ اور کئی طریقوں سے اس عمل کے انسداد کی کوششیں کی جاتی ہے اور اجتماعی سزا کے طور پر خاندان کو بھی ذہنی ٹارچر کے عمل سے گزارا جاتا ہے.

اس اجتماعی سزا کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے سیکیورٹی اداروں نے تنظیم کے چیئرپرسن ڈاکٹر صبحیہ بلوچ کے بھائی اور کزن کو اس لئے لاپتہ کیا ہے کہ اجتماعی سزا کے عمل سے صبحیہ بلوچ کو سیاسی عمل سے دستبردار کیا جائے. اس توانا آواز کو خاموش کیا جائے تاکہ بلوچستان کی لڑکیاں سیاسی عمل سے دور رہے اور بلوچ سماج بانجھ بن کر ہمیشہ محکومی اور غلامی کا رونا روتا رہے.

کیونکہ اس ملک کے قومی سلامتی پر مامور ادارے اس بات سے واقف ہے کہ تعلیم یافتہ اور سیاسی شعور سے لیس خواتین ان کے عزائم کے سامنے ہمیشہ رکاوٹ بنی رہیں گی۔

ڈاکٹر صبحیہ بحثیت طالب علم تنظیم کی سربراہ بلوچستان میں علم کی روشنی پھیلانے کا پیامبر ہے. ایک توانا آواز ہے. جب بھی جہاں بھی بلوچ طالب علموں کو تنظیم کی ضرورت پڑی، صبحیہ کی ضرورت پڑھی، صبحیہ تنظیم کے پلیٹ فارم سے ہر مقام پر بلوچ قوم کے طالب علموں کے لئے آواز اٹھاتی رہی.

شہید بانک کریمہ کی جدوجہد خواتین کے لئے مشعل راہ ہے، صبحیہ بلوچ اور دیگر کئی خواتین آج اس راہ کے مسافر بن گئے ہیں جو ایک واضح پیغام ہے کہ بلوچ حقوق کی جدوجہد اب خواتین اور مرد دونوں کی ذمہ داری ہے،. ڈاکٹر صبحیہ کو یہ دھمکی دینا کہ سیاست سے دستبرداری کی صورت میں ہی بھائی اور کزن کو بازیاب کیا جائے گا یہ اس خوف کا اظہار ہے جو یہاں کے اداروں کو بلوچ خواتین کی سیاسی عمل میں شمولیت سے لاحق ہے. آج آپکے، امید کو آپکے حمایت کی ضرورت ہے.

آپکی ہمت کو مذید حوصلہ دینے کی ضرورت ہے. آپ کو صبحیہ کے لئے آواز بلند کرنا ہوگا کیونکہ ڈاکٹر صبحیہ ہماری آواز ہے، ہم سب کی آواز ہے. ہمارے لئے امید کی کرن ہے، ہم طالب علموں کی امید ہے. ہم کیسے اپنے امید اور آواز کو کمزور کرسکتے ہیں. اس لئے صرف صبحیہ کے لئے نہیں اپنے قوم کے سیاسی مستقبل کے لئے اور بلوچ خواتین کی سیاسی عمل میں شمولیت کے حق کے لئے بھرپور آواز اٹھائیں. سیاسی بانجھ پن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے صبحیہ اور دیگر خواتین سیاسی ورکروں کی جدوجہد کو مضبوط بنانے کے لئے آواز اٹھائیں. اگر صبحیہ کمزور ہوئی تو سمجھ لو سماج میں بسنے والی آدھی آبادی کمزور ہوگی کیونکہ صبحیہ جیسے رہنماء ہی سماج کی اجتماعی فلاح و بہبود کی مضبوطی کا ضامن ہے. اور صبحیہ جیسی باہمت طالب علم رہنما کا جنم بلوچ سماج میں بمشکل ہی ہوتا ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں