ورلڈ ہیلتھ اورگنائزیشن نے کورونا کی نئی قسم کو باعث تشویش قرار دے دیا، نئی قسم کو اومیکرون کا نام دیا گیا ہے اور اس کا تکنیکی نام بی ڈاٹ ون ڈاٹ ون فائیو ٹو نائن ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق نئی قسم میں کورونا وائرس نے بڑے پیمانے پر اپنی ہیت اور شکل تبدیل کر لی ہے اور اس وائرس میں ری انفیکشن کا خطرہ دیگر تمام اقسام سے زیادہ ہے۔
کورونا کی نئی قسم کے کیسز سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں رپورٹ ہوئے۔ جنوبی افریقہ میں اس قسم کی تصدیق کے بعد سے کورونا کی یہ قسم بوٹسوانا، بلجیئم، ہانگ کانگ، اور اسرائیل میں پائی گئی ہے۔
دریافت ہونے والی کورونا کی نئی قسم کے جینیاتی ڈھانچے میں بہت سے تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ سائنسدانوں نے اس نئی قسم کو ہولناک وائرس قرار دیا ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ قسم اب تک سامنے آنے والی کورونا اقسام میں سب سے زیادہ خطر ناک ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اومیکرون قسم نے ہمیں حیران کر دیا ہے کیونکہ اس میں ہماری توقع سے زیادہ تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ ماہرین کے مطابق کورونا کی اومیکرون قسم میں 50 تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں ۔ جبکہ اس سے پہلے سب سے زیادہ خطرناک سمجھی جانے والی قسم ڈیلٹا میں صرف 2 تبدیلیاں پائی گئی تھیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قسم میں موجود مخصوص سپائک پروٹین جس کو ویکسین نشانہ بناتی ہے، اس میں 30 جینیاتی تبدیلیاں موجود ہیں۔
اس وائرس کی قسم کے معائنے کے بعد ہم نے دیکھا کہ اس کا وہ حصہ جو سب سے پہلے انسانی جسم پر اثرانداز ہوتا ہے اس کی سطح پر بھی 10 جینیاتی تبدیلیاں ہیں۔
طبی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے شاید یہ قسم اندازے سے زیادہ پھیل چکی ہے اور جنوبی افریقہ کے زیادہ تر صوبوں میں موجود ہو سکتی ہے۔
اب تک اس نئی قسم کے درجنوں مصدقہ متاثرین سامنے آ چکے ہیں۔ زیادہ تر کیسز جنوبی افریقہ کے صوبے گوٹنگ میں سامنے آئے لیکن چند متاثرین بیرون ملک بھی موجود ہیں جن میں یورپ، جنوبی افریقہ کے ہمسایہ ممالک اور اسرائیل شامل ہیں۔
افریقی ملک بوٹسوانا میں چار متاثرین سامنے آئے ہیں جبکہ ایک کیس ہانگ کانگ میں بھی دریافت ہوا ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ مریض جنوبی افریقہ سے سفر کر رہا تھا۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہنگامی بنیادوں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اس قسم کا پھیلاو کتنی تیزی سے ہوتا ہے اور ویکسین اس قسم کے خلاف کتنی کار آمد ہے۔