کوئٹہ: بلوچ طلباء کی عدم بازیابی کے خلاف دھرنا جاری، تعلیمی ادارے بند

289

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی سے رواں ماہ دو طالب علم سہیل بلوچ اور فصیح اللہ کی جبری گمشدگی اور عدم بازیابی کے خلاف ساتھی طلباء کا احتجاج آج پندرہویں روز بھی جاری رہا –

بلوچ طلباء تنظیموں کی اپیل پر آج کوئٹہ کے تمام تعلیمی ادارے بند رہے, اس احتجاج کی کال کی حمایت پشتون ایس ایف نے بھی کیا ہے –

تفصیلات کے مطابق آج طلباء تنظیموں کی اپیل پر گورنمنٹ ڈگری کالج سریاب روڈ، پولی ٹیکنیک کالج، بلوچستان یونیورسٹی، سردار بہادر خان یونیورسٹی، انٹر کالج کیچی بیگ، آئی ٹی یونیورسٹی، سائنس کالج اور بولان میڈیکل کالج تمام تر سرگرمیوں کے لیے بند رہ رہے اور کلاسز، امتحانات سے مکمّل بائیکاٹ کیا گیا –

اس موقع پر طلباء رہنماؤں نے کہا کہ تعلیمی اداروں سے طلباء کی جبری گمشدگیوں پر تشویش ہے –

انہوں نے کہا کہ جامعہ بلوچستان سے دو طالب علموں کی جبری گمشدگی اور اس سے پہلے کیمرہ اسیکنڈل جیسے واقعات بلوچ طلباء کو تعلیم سے دور رکھنے کی سازش ہے –

بلوچستان یونیورسٹی کے احاطے میں 15 دن سے دھرنا دینے والے طلبہ سے آج سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے لاپتہ طلباء کی بازیابی کا مطالبہ کیا –

دریں اثناء پنچاب کے شہر ملتان میں بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کی جانب سے سے جامعہ بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے دو طلباء کے لیے آج جامعہ زکریا میں پیس واک کیا گیا- جس میں بلوچ، پشتون اور اور دیگر ترقی پسند طلباء نے شرکت کرتے ہوئے طلباء کے لاپتہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا –

اس موقع پر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فصیح بلوچ اور سہیل بلوچ کو جامعہ بلوچستان سے لاپتہ کیا جاتا ہے جو کہ مطالعہ پاکستان کے شعبہ میں زیر تعلیم تھے ان کو جامعہ کے اندر سے لاپتہ کیا جاتا ہے مگر تاحال ان کو حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس بات کا علم ہی نہیں کہ ایک ادارے میں کیمرے بند کیوں ہوتے ہیں؟ جب طلباء تعلیم گاہ میں کی محفوظ نہیں تو پھر وہ دنیا کے کسی کونے میں محفوظ نہیں ہوسکتے-

انہوں نے کہا کہ پشتوں اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے چئیرمین کو اسی جامعہ کے ہاسٹل میں زہر دیا جاتا ہے مگر تب بھی ہمارے حفاظت کے لیے لگے کمرے ہمیں بند ملتے ہیں اور جب فصیح بلوچ اور سہیل بلوچ کو لاپتہ کیا جاتا ہے تو تب بھی اسی ادارے کے کیمرے جو کے کنارے حفاظت کے لیے لگے ہوتے ہیں وہ اب بھی ہمیں بند ہی نظر آتے ہیں آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ اور یہی کیمرے جب ہماری عزت کی باری آتی ہے تو یہی کیمرے ہماری ماؤں بہنوں کو حراس کرنے لیے جامعہ میں استعمال کیے جاتے ہیں لیکن تب بھی یہ انتظامیہ بے بس و لاچار نظر آتی ہے۔

پشتونخوا کے مرکزی شہر پشاور سے آمد اطلاعات کے مطابق پیر کے روز پشتون اسٹوڈنٹس فڈریشن اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کی جانب سے جامعہ بلوچستان کے طالبعلموں کی جبری گمشدگی کے خلاف طلباء کی احتجاج کی حمایت میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔

یونیورسٹی کے احاطے میں پشتون طلباء کی بڑی تعداد نے جمع ہوکر بلوچستان یونیورسٹی میں بلوچ طلباء کی جبری گمشدگی کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی واقعہ قابل مذمت ہے –

انہوں نے کہا کہ جامعہ بلوچستان میں اس طرح کے واقعات رونما ہونا ریاست کی ناکامی ہے – انہوں نے لاپتہ طلباء کی بازیابی کا مطالبہ کیا –