چچا عامر اور انکے بے حس مزدور
تحریر: نظام بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میں ویسے نہ کوئی لکھاری ہوں ، نہ ہی کوئی دانشور ہوں، میں ایک اسٹوڈنٹ ہوں، اکثر مجھے استاد کہتا ہے ” تو شر نہ بہ ئے نظام ”
مگر پتہ نہیں آج دل کو ہوا کیا ہے کہ مجھے مجبور کررہا ہے کچھ لکھنے کیلئے۔ ہم سب جانور ہیں صرف کچھ ذہانت کا فرق ہے۔ ہم بنی آدم بولنے والے جانور ہیں۔ اگر بات کرنے کے قابل نہ ہوتے تو شاید ہم بھی دوسرے جانوروں میں شامل ہوجاتے۔ اس دنیا میں ہزاروں کے حساب سے جانور رہتے ہیں اُن میں انسان وہ جانور ہے جسکے اندر دو خصوصیات موجود ہیں۔ ایک وہ ڈرتا ہے لیکن ذہانت کا استعمال کرکے اپنے سے زیادہ طاقتور جانور کو قابو میں لاتا ہے۔ دوسرا وہ بولتا اور سمجھتا ہے۔
اس بات کو ہم سب جانتے ہیں کہ سمندر میں بڑے بڑے مچھلیوں کا شکار کرنا، جنگلوں میں بڑے بڑے جانور پکڑنا جیسا کہ اونٹ، ہاتھی، جنگلی گائے وغیرہ کو پکڑ کر ان سے کام لینا اور ان کو زبح کرکے کھانا، جنگل کے بادشاہ شیر کو بھی پکڑ کر پنجرے میں بند کرتا ہے۔ میرے کہنے کا مقصد انسان وہ جانور ہے جو اپنے سے طاقتور جانور کو اپنی ذہانت کا استعمال کرکے ان سے کام لیتا ہے۔
دوسری بات بولنے کی ہے جو دماغ میں آجاتا ہے وہ بولتا وہ سوال کرتا ہے وہ پوچھتا ہے یہ کیوں ہوا؟ کس نے کیا؟ کس طرح ہوا؟ ہمیں کیوں مارا جاتا ہے؟ ہمارا حق کیوں کھایا جاتا ہے اور کس نے کھایا ہے؟ یہ سارے سوالات ہر جانور نہیں کر سکتا۔ صرف انسان ہی سوچتا اور سوال کرسکتا ہے۔ انسان ہی اپنا درد بیان کرتا ہے، کہنے اور بولنے کی آزادی سب کو ہے لیکن اس معاشرے میں کہنے اور بولنے پر پابندی ہے، اظہار رائے پر قدغن لگائی گئی ہے۔ انسان کو اپنے حقوق مانگنے کا حق حاصل ہے اور ایک انسان کا فرض ہے کہ وہ ظالم کے خلاف کھڑا ہوکر مظلوم کے حقوق کیلئے آواز اٹھائے۔ وہ انسان جو زمین پر ڈھائے گئے ظلم اور زیادتیوں کے خلاف اسلئے نہیں بولتا کہ انہیں ڈر ہے تو وہ انسان کہلانے کے لائق نہیں کیونکہ انسان اور جانور میں فرق یہ ہے کہ انسان اپنے اندر کے خوف کو سوچنے اور زہانت کا استعمال کرنے سے ختم کرسکتا ہے، اگر انکا زہانت کام نہیں کر رہا تو انکے درمیان اور جانور کے درمیان کوئی فرق نہیں رہا۔ جس انسان کے اندر شعور بیدار ہوتا ہے تو نہ وہ بولنے کو ڈرتا ہے اور نہ ہی سچ کو سمجھ کر جھوٹ کے سامنے جھکتا ہے۔
انسان کو معاشرے میں رہنے کیلئے دوسرے لوگوں سے روابط قائم رکھنا ناگزیر ہے کیونکہ وہ ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے، ایک دوسرے کو اپنے درد غم، دکھ سکھ بیان نہیں کر سکتے، جب انسان معاشرے کے دوسرے لوگوں سے اچھے تعلقات قائم کرتا ہے تو وہ اپنے مسائل کو بیان کرسکتا ہے۔ اجتماعی طور پر ان مسائل کا حل باآسانی سے ڈھونڈ سکتا ہے۔
چلو ہم آتے ہیں اپنے موضوع کی طرف، کئی سال پہلے مالدار حانج ایک بہت بڑے بکریوں کا ریوڈ لیکر چچا عامر کو سنبھالنے کیلئے ان کے حوالے کرکے کہتا ہے کہ چچا آپکا ماہانہ تنخواہ آپ کو ملے گا صرف آپ باہر سے آنے والے باقی جانوروں کو ان پر حملہ کرنے کیلئے نہیں چھوڑنا تاکہ میرے مال مویشی دشمنوں سے بچ سکیں۔
کچھ اور لوگ بھی چچا عامر کے ماتحت کام کر رہے تھے جو اس کے کہنے پر پہرہ دیا کرتے تھے ان میں کچھ لوگ بھیڑ بکریوں کو پالتے تھے ان کو چارہ دیتے تھے۔
اس ریوڈ میں مختلف نسل کے جانور جن میں موٹے، دبلے پتلے اور بڑے بڑے سینگوں والی لڑاکو جانور بھی شامل تھے۔ جانوروں کیلئے چارہ اور مزدوروں کے تنخواہ اور دیگر اخراجات انہی جانوروں کے بالوں، کھالوں، اون اور پشموں سے نکالا جاتا تھا۔
اب چچا عامر کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ کسطرح چوکیداری سے ایک چرواہا بنا۔
چچا عامر ایک چوکیدار تھا انکی ڈیوٹی گیٹ پر تھا۔ وہ جانوروں کے فارم سے پشم اون اور کھالوں کو بازار میں بیچنے والے مزدوروں کو آتے جاتے دیکھ کر ایک دن سوچنے لگا کہ یہ کسطرح ان کا فروخت کرتے ہیں اس ضمن میں چچا نے اپنا ایک بندہ انکے پیچھے بھیج دیا تاکہ وہ معلوم کرے کہ یہ لوگ ان کھال وغیرہ کو فروخت کرنے کے بعد کیا کریں گے۔
حسب حکم وہ بندہ چچا کے کہنے پر انکا تعاقب کرتے ہوئے بازار چلاگیا جہاں انہوں نے اون، پشم، کھال اور دودھ فروخت کرکے ان پیسوں سے جانوروں کیلئے چارہ خریدا اور باقی پیسوں کو مزدوروں اور چوکیدار کی تنخواہ کےلئے الگ کیا۔ ان کے علاوہ باقی پیسوں کو رکھ دیا تاکہ وہ جانوروں کو سردیوں اور گرمیوں کے موسم میں سہولیات فراہم کریں۔
وہ بندہ یہ سب کچھ دیکھ کر واپس چچا عامر کو آگاہی دیتا ہے تو چچا نے سوچا کہ اس کام میں اگر خرد برد کرنے والا کوئی ہو تو پیسے بہت ہیں۔ چچا نہ ایک دن ایک مزدور کو جانور کی کھال لے جاتے ہوئے دیکھ کر بلایا اور انکا نام پوچھا تو انہوں نے جواب دیا میرا نام سکندر ہے کھال کو بازار میں فروخت کرکے جانوروں کیلئے چارہ خرید کر لاتا ہوں۔ تو چچا سرگوشی میں سکندر کو کہنے لگا کہ کھال فروخت کرکے پیسوں کو آدھے آدھے حصوں میں بانٹ لیں گے، مالدار کو پتہ ہی نہیں چلے گا کہ یہ پیسے کیسے اور کہاں خرچ ہوئے۔
جواب میں سکندر نے کہا کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا، میں اور آپ صرف اپنے مزدوری کے پیسے لے سکتے ہیں۔ چچا کو یہ بات گوارہ نہیں ہوا اور انکے درمیان ناراضگی پیدا ہوئی۔ چنانچہ چچا عامر نے سکندر کے خلاف کچھ تدابیر سوچ کر مالدار حانج کو انکے خلاف بڑھکایا اور کہنے لگا کہ سکندر ایک غدار ہے ہم دن رات جانوروں کی حفاظت کیلئے سردی میں پہرہ دے رہے ہیں لیکن سکندر انکے پیسوں کو پتہ نہیں کہاں کہاں خرچ کر رہا ہے۔
چنانچہ چچا عامر نے اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے سکندر کو نوکری سے نکال دیا اور انکی جگہ اپنے بیٹے بویاخان کو انچارج بنا دیا۔
اب یہ دونوں ملکر جانوروں کے چارے کے پیسے کھانے لگے، دوسری جانب جب بھیڑ بکریاں بھوک کی وجہ سے میں میں کرتے تو چچا اور انکا بیٹا بویا خان ان پر لاٹھی چارج کرکے انکو خاموش کرانے کی کوشش کرتا۔ بکریاں بھی انکو نہیں پہچانتے تھے کیونکہ بندہ نیا تھا سکندر نہیں تھا اور اس سے بہت کم خوراک فراہم کرتاتھا تو چچا نے کچھ اور طریقہ کار ڈھونڈ کر اپنا ایک بندہ لایا اور انکو سکندر کے کپڑے پہنا دیئے تاکہ بکریاں انکو پہچانے کو شور شرابہ نہ کریں۔ یہی بندہ جب بکریوں کے پاس جاتا ہے تو سکندر کے کپڑے پہنتا اور جب گیٹ پر پہرہ دینے کیلئے جاتا ہے تو بھیس بدل دیتا ہے ۔ یعنی اب چوکیداری اور مزدوری، دونوں کے پیسے چچا عامر کے جیب میں آنے لگے۔
ایک دن پیرک اکیرما چچا ایڈنا کے گھر آیا جنکا گھر حانج کے فارم کے قریب تھا۔ اکیرما نے صورتحال کا جائزہ لیکر حیرانگی سے دنگ رہ گیا اور چچا ایڈنا سے پوچھا کہ یہ سارا نظام کسطرح چل رہا ہے پورا کا پورا نظام ایک چوکیدار کے ہاتھ میں ہے باقی کام کرنے والے مزدوروں کو کچھ نہیں ملتا بس فالتو میں انکا صرف نام ہے۔ اکیرما نے چچا ایڈنا سے پوچھا کے آپکا ہمسایہ کب سے یہ دھندہ کر رہا ہے اور انکو الگ الگ نام سے کیوں بلاتے ہیں تو چچا ایڈنا نے جواب دیا کہ ظاہر سی بات ہے نام کو کام ہی کے مطابق رکھ دیا جاتا ہے۔
جب وہ پورے فارم کے احاطے کو سنبھالتا ہے تو اس وقت انکا نام بکرہ اعظم اور جب وہ گھاس پھوس اور جانوروں کے چارے کا کام کرتا ہے تو انکا نام بکرہ اعلیٰ ہے۔
ان میں ایک اور بندہ ہے جنکو خود کا پتہ نہیں کہ میں کس لئے کام کر رہا ہوں بس وہ اس بات پر خوش ہے کہ میں بھیڑ بکریوں کا کام کرتا ہوں اور سارا دن ان ہی کے درمیان رہتا ہے جنکا نام چیئرمین بھیڑ رکھا گیا ہے۔ لیکن ایک بات مجھے سمجھ نہیں آرہا یہ جو سارے چچا عامر کے مزدور ہیں صرف وہ الگ الگ نام کے ہیں لیکن انکا کام ایک ہی ہے وہ ہے بے زبان جانوروں کے گھاس پھوس اور چارے کے پیسوں کو خردبرد کرکے چچا عامر کو دیتے ہیں۔
چچا ایڈنا نے اکیرما سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ ایک اور کمال کی بات ہے چچا عامر نے ایسے پالیسی بنائے ہیں کہ وہ پیسہ اور نام دونوں کماتا ہے۔ جب بھی وہ فارم میں کوئی مزدور لائے تو انکو یہ بتاتا ہے کہ “بکرہ اعلیٰ صاحب یہ پیسے ان جانوروں کے ہیں لیکن ان میں میرا حق ہے گر میں نہ ہوتا تو چچا ایڈنا انکو کب سے چراکر لے جاتے”۔ اس بات پر بکرہ اعلیٰ انتہائی خوش ہوکر پرجوش جذبے کے ساتھ نعرہ لگا کر کہتے ہیں
چچا عامر زندہ باد !
سب سے پہلے چچا عامر
یہ سارہ معاملہ دیکھ کر مجھے تعجب ہوتی ہے اور ہنسی آتی ہے چچا ایڈنا نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اکیرما ایک اور بات سنو!
چچا عامر کا ایک اور پالیسی ہے وہ یہ ہے کہ وہ بکرہ اعلیٰ کو حکم دیتا ہے کہ ان بے زبان جانوروں کو آپس میں لڑانا ہے تاکہ ان کو باقی چیزوں کی خبر نہ ہو۔ جب بکرہ اعلیٰ نے انہیں اسکے بارے میں دریافت کیا ہے تو چچا عامر نے انہیں یہ جواب دیا ہے کہ اگر ایک دن میں جانوروں کو پانچ سو کا چارہ دینا ہو تو انہیں ایک سو کا چارہ دے دو باقی بچے پیسے میرے اور آپ کے ہیں۔ ان جانوروں کو کیا پتہ کہ چارے خریدنے کیلئے انہیں پانچ سو دیا گیا ہے بس وہ یہ سمجھتے کر خوش ہوتے ہیں کہ یہ تھوڑا بہت چارہ اللْہ کی طرف سے ہماری تقدیر میں لکھی ہے۔ جب آپ انکے سامنے انکی ضروریات سے کم چارے رکھتے ہو تو انہیں بھوک لگتی ہے تو وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں اور اپنے غصّے کو ایک دوسرے پر اسطرح نکال دیتے ہیں جیسے انہوں نے پوری دنیا کو فتح کی ہوئی ہو۔ لیکن انکو اپنے حقوق کا پتہ نہیں کہ پانچ سو میں سے چار سو چوکیدار خرد برد کر کے انکا حق تلفی کر رہا ہے۔ بھوک انکے سوچنے کی صلاحیت کو ختم کرتی ہے جب بھی آپ انکے پاس جاؤ گے تو وہ آپ سے پیار اور محبت سے پیش آتے ہیں اور یہ امید کرتے ہیں کہ آپ انکے لئے کوئی چارہ وغیرہ کا بند وبست کریں گے۔ کیونکہ ان کو آپ نے بھوکا رکھا ہے بس انکا سوچ اپنی بھوک اور پیاس کو بجھانا ہے وہ کبھی نہیں سوچتا کہ آپ انکو چارہ دینے والا نہیں بلکہ انکے حقوق سلب کرنے والا ہو۔
یہ ساری کہانی سن کر اکیرما نے چچا ایڈنا سے کہا یار بس کرو آپ خود اپنے ہمسائے سے ناخوش ہو اسلئے پیٹ پیچھے انکے خلاف باتیں کر رہے ہو۔
چچا ایڈنا نے اپنی گفتگو کو جاری کرتے ہوئے کہا کہ چلو جانور تو بے زبان ہیں انکو سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں مگر مجھے ان مزدوروں پر ترس آرہا ہے کہ وہ چچا عامر کے ہاتھوں کسطرح استعمال ہو رہے ہیں ان کو ہمت نہیں کہ وہ کہیں کہ ہم جانیں مالدار حانج، آپ کون ہو ہمیں حکم صادر کر رہے ہو، آپ کا کام صرف چوکیداری ہے آپ اپنے کام سے کام رکھو ہم جانیں ہمارا کام۔
بے چارے مزدور اسلئے کچھ نہیں کہہ سکتے ان کو ڈر ہے کہ انہیں مزدوری سے نکالا جائے گا کیونکہ سکندر نے چچا عامر کی بات کا انکار کیا تھا انکا حشر یہی ہوا کہ انہیں مزدوری سے نکالا گیا اور آج دربدر کی ٹھوکریں کھاکر گلی گلی گھومتا پھرتا ہے اور ان کا ایک ہی سوال ہے کہ “مجھے کیوں نکالا گیا”۔
اکیرما نے کہا کہ یہ تو پھر اپنی غلامی کو کچھ زیادہ عزت دینے کی کوشش کر رہا ہے ۔ جواب میں چچا ایڈنا نے کہا کہ انکا نعرہ ہی یہ ہے کہ “غلامی کو عزت دو”۔
ان جانوروں کی بدحالی کو دیکھ کر اکیرما نے کہا کہ اتنی قلیل مقدار میں گھاس پھوس ملنے سے یہ بھوک سے نہیں مرتے کیا۔۔۔ چچا ایڈنا نے طنزیہ انداز میں جواب دیا کہ بس یہ اس حد تک خوش ہیں کہ اتنا مل جائے کہ زندہ رہیں بس انکی زندگی میں کوئی مزہ نہیں۔
اکیرما نے چچا ایڈنا سے کہا “بس یہ تو جانور ہیں ان میں بولنے کیلئے زبان نہیں اور سوچنے کی زہانت نہیں انکو کیا پتہ کے گھاس پھوس کے علاوہ زندگی میں اور بہت کچھ مزے ہیں انکو اس حد تک محدود کیا گیا ہے بس یہ یہی سمجھتے ہیں کہ گھاس کے علاوہ دنیا میں بہتر کوئی شے نہیں۔
چچا ایڈنا نے اکیرما کی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انسان اور جانور میں یہی فرق ہے اگر انسان نے اپنے حقوق کیلئے آواز نہیں اٹھائے تو وہ بھی ان جانوروں کی طرح بدحال ہونگے ان پر ظلم ہوتا رہے گا۔
اکیرما نے کہا جانور سب ہیں انسان صرف سوچنے بولنے اور سمجھنے اور زہانت رکھنے والا جانور ہے اگر جو انسان اپنے ارد گرد ہونے والے ظلم کے خلاف بات نہیں کرسکتا تو ان میں اور جانوروں میں کوئی فرق باقی نہ رہے گا۔ انسان اگر اپنی زہانت کا صحیح طریقے سے استعمال کرے تو وہ کائنات میں بڑے بڑے قوتوں کو اپنے زیرعتاب لائے گا۔
چچا ایڈنا نے کہا اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ جتنے بے زبان مزدور جو چچا عامر کے ماتحت ہیں یہ سارے جانوروں کے درجے میں آتے ہیں کیونکہ یہ تو بھی کچھ بول نہیں سکتے۔
ان لوگوں کی خاموشی اور بے حسی کی وجہ سے ایک ہی وقت میں چچا عامر چوکیدار ہے اور چرواہا بھی۔ یعنی ان کا سارا نظام چچا عامر کی نگرانی میں ہے جو وہ حکم دیتا ہے یہ سارے لبیک کرتے ہیں اور یہ فرسودہ نظام اسطرح چلتا رہے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں