پشتون اپنے اوپر ظلم اور جبر کا زمہ دار خود
تحریر: شہناز گُل
دی بلوچستان پوسٹ
پاکستان کو بنگالیوں نے بنایا، 1905 کو بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ میں مسلم لیگ کا قیام ہوا جو انگریز سرکار نے صرف ہندوستان کی قوم پرست جماعت کانگریس کے خلاف استمعال کرنا تھا تاکہ انگریزوں اپنے فارمولا ڈیوائیڈ اینڈ رول کے سہارے ہندوستان میں حکمرانی کر سکے۔ انگریزوں نے صرف کانگریسی لیڈروں اور ورکروں کو جیل میں سزائیں اور پھانسیاں دی ہیں جو ہندوستان کی آزادی کیلئے جدوجہد کر رہے تھے۔ نکوبار آئیلنڈ میں سیلولر جیل(کالا پانی) میں قیدی صرف کانگریسی رہنما اور ورکر تھے ناکہ مسلم لیگی۔ کیا انگریزوں نے کوئی پنجابی مسلمان کو پھانسی دی ہے کہ تم کیوں پاکستان کی مانگ رہے ہو؟ جی نہیں! کیا کوئی بلوچ اور سندھی کو پھانسی دی کہ کیوں ہندوستان کی آزادی یا پاکستان مانگ رہے ہو؟ جی نہیں۔
ہم پشتون قوم پرست تو شروع ہی سے پاکستان کے بننے کے خلاف تھے، ہمارا اپنا آزاد پشتونستان کی سر زمین تھی جو افغانستان کا حصہ تھا۔ ہم اپنے وطن لوی افغانستان کے تھے، پشاور سے اٹک تک لوی افغانستان تھا انگریز سر ڈورینڈ نے ہمیں تقسیم کیا۔ ہمارا تو ایک آزاد وطن تھا تو ہمیں کیوں پاکستان چایے تھا؟ اور کیوں ہندوستان کی تقسیم چایتے جہاں وہیں کے مسلمانوں نے پہلے گیارہ سو سال بادشاہی جو کی تھی؟
بلوچستان کو تو بعد میں 1948 میں زبردستی قبضہ کرکے شامل کیا گیا۔ آدھا پنجاب بھی ہندوستان میں رہ گیا۔ مطلب کہ آج کے پاکستان میں نہ بلوچ اور پشتون پاکستان کے بنانے میں شامل تھے اور نہ ہی سندھی اور پنجابی! بس انگریزوں نے کُچھ بُزدل لوگوں کے لئے پاکستان بنایا جو بعد میں بھاگ کر ادھر کراچی میں آئے اور بولتے ہیں کہ ہم نے قربانی دی، قربانی تو آزادی سے پہلے دی جاتی ہے۔ جب انگریزوں نے پاکستان بنایا تو بعد میں بھاگنے کا نام کیسے قربانی؟
اگر تاریخ کو پڑھا جائے تو پتا چلے گا کہ پاکستان کو بنگالیوں نے بنایا اور انہی بنگالیوں نے دیکھا کہ ہمارا ہی بنایا گیا مُلک ہمارے عورتوں کا ریپ، بچوں، طالب علموں اور رہنماوں کا قتل عام اور شہریں تباہ کر رہاہے تو بنگالیوں نے یک سال کے اندر اندر دل سے پاکستان کی محبت پھنک کر نفرت کو پالا اور اسی مُلک کو توڑ دیا۔ جب قوموں کو مشکل وقت آ جاتا ہے تو طالب علم، پروفیسر اور انقلابی لیڈر قوم کی رہنمائی کرتے ہیں، شھادت اور قربانیوں کو ضائع نہیں کرتے بلکہ ان کو نفرت میں بدل دیتے ہیں اور اپنی قوم کو یک نظریہ اور سوچ کے مطابق آزادی کی منزل دیتے ہیں۔ تو بنگالی شیخ مجیب الرحمان جو ایک انتہائی پاکستان پرست تھا انھوں نے اپنی قوم کے ساتھ ہوتے ہوئے ظلم کو دیکھ کر بنگالی قوم کو 1971 میں بنگلہ دیش کا تُخفہ دیا۔ مطلب وہی کیا جو ایک انقلابی لیڈر کرتا ہے۔
یاد رہے اس وقت بھی بنگالی قوم میں جماعت اسلامی کے الشمس، البدر اور رضاکار جیسے لوگ تھے جو اپنے ہی بنگالی بھائیوں کو شھیدکر رہے تھے پر اُن گُل خانوں کو شکست ہوئی جو بعد میں انقلابیوں نے چُن چُن کر مارا۔
1948 کا انگریزوں کا پاکستان 1971 میں ٹوٹ گیا اور دو قومی نظریہ گیا بھاڑ میں۔ اس پاکستان کی وجہ سے برصیغر کے مسلمان تقسم اور کمزور پڑ گئے۔ آج پاکستان کی اکونومی 260 بلین ڈالر ہے تو بنگلہ دیش کی 324 بلین۔ پاکستان کی جی ڈی پی پر کیپیٹا 990 ہے تو بنگلہ دیش کا 2300 جی ڈی پی پر کپیٹا ہے مطلب آج بنگالی پاکستانیوں سے تین گُناہ خوشحال ہیں۔
1973 میں جب بلوچ اور پشتون اپنے وطن کی آزادی کیلئے پنجابی کے خلاف لڑنے لگے تو مذہب کو استمعال کرکے پشتونوں کو گمراہ کیا گیا بعد میں 1980 کی دھائی میں جہاد کے نعرے لگے جس سے صرف ڈورائینڈ لائین کے دونوں طرف پشتون قوم تباہ ہوئی۔
چالیس سال سے پشتونوں کا قتل عام اور بربادی ہو رہی ہے اور جس بدنام جہاد کیلئے جو ڈالر اور سعودی ریال آئے وہ سارے پنجابی جنرل کھاگئے اور مرنے والے صرف پشتون۔
یہ پاکستانی پنجابی اپنے ملک میں سوُد کا نظام، انگریزی عدالت، مُجرے، جھوٹی جمہوریت اور افغانستان میں اسلام کا درس دیتے رہتے ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کی آزادی کیلئے ہندوستان کے خلاف جہاد حرام اور افغانستان میں 45 سال سے جہاد حلال ہے اس لئے کہ پشتون اور افغان تباہ ہو اور پنجابی کی سرحدوں میں امن ہو۔
ایک طرف پنجابی خود ھندوستان کے ساتھ تجارت، مٹھائیوں کی تقسیم اور آپس میں شادیاں کرتے ہیں پر ھم پشتونوں کو مُلک دشمن اور را کا ایجنڈ قرار دیتے ہیں۔
خود ضیا الحق نے سیاچن، مشرف نے کارگِل اور باجوہ نے کشمیر بغیر جنگ کے ھندوستان کو ہاتھ میں دیا پھر بھی غدار ہم پشتون ہیں۔ کشمیریوں کیلئے بس گانے بناتے ہیں ، نہ اسلامی ایٹمی افواج خود کشمیر کی آزادی کیلئے جنگ کرتی ہے جس طرع آزربائیجان نے آرمانیہ کے خلاف کیا اور نہ ہی پنجابی جہادیوں کو اجازت ہے کہ اپنے بغل میں کشمیری مسلمانوں کی آزادی کیلئے جہاد کریں ویسے بھی پنجابی کونسا جہاد کرتے ہیں جہاد کیلئے صرف جاھل پشتون ہی افغانستان میں پنجابی کے فائدے کیلئے استمعال ہوتے ہیں۔
پنجابی رنجیت سنگھ کی نسل خود لاہور میں مُجرے، ھیرامنڈی، سوُد اور درگاہوں میں شریک ہوتے ہیں اور ہمارے قوم پرستی کے خلاف مزہب کو استمعال کرتے ہیں۔ ہم پشتون تو پنجابیوں سے پہلے مسلمان تھے، ڈورائینڈ لائین کے دونوں طرف پشتو بولنے والے %100 مسلمان ہیں لیکن آج بھی دنیا میں %70 پنجابی بولنے والے ہندو اور سِکھ ہیں۔
ھندوستان میں رانا، راجپوت، راؤ، باجواہ، سہیگل اور جنجوہ وغیرہ آپ کو ہندو اور سکھ ملیں گے۔ اللہ کی شان دیکھیں یا ہماری کم بختی کہیں کہ یہی پنجابی ہمیں افغانوں کو اسلام اور جہاد کا درس چالیس سال سے دے رہا ہے۔
ایک طرف پاکستان کو بنانے والے بنگالی قوم جو 1970 کے انتخابات کے بعد ایک سال کے اندر ظلم و جبر سے تنگ آکر پاکستان سے آزادی کا اعلان کرکے 1971 میں بنگلہ دیش بناتے ہیں۔ دوسری طرف ہم پشتون قوم اس پاکستان کے بنانے کے خلاف تھے آج تک چالیس سال سے پشتونوں پر ظلم و جبر کو سہتے ہیں پر اپنے وطن پشتونستان کی آزادی کی بات تک نہیں کرتے۔
پشتونوں کی قتل عام، گھروں کی تباھی، جنگی جہازوں سے بمباری اور شہروں کی تباھی چالیس سال سے دیکھ رہے ہیں پر ہم سارے گُل خان ہیں کہ پشتون قوم کی آزادی کیلئے کوئی انقلابی لیڈر سامنے نہیں آتا جو پشتونوں کی شھادت اور قربانیاں آزاد وطن کی صورت میں بدل دے۔ پشتون قوم کی رہنمائی کرے اور گریٹر پشتونستان بنائے یا ھم افغان اتفاق کرکے لوئی افغانستان بنائیں۔
ہمارے مذھبی اور قوم پرست مُنافق لیڈر آج بھی 70 سال سے یہی کوشش میں ہیں کہ مُلک میں جمہوریت ہوگا تو پشتنوں کو آزادی ملے گی۔ ہمارے یہ مُنافق لیڈر ہمارے شھادتوں اور لاشوں پر سیاست کرتے ہیں، ہمارے شھادت اور قربانیوں کو ضائع کر رہے ہیں کیونکہ سب کو پتا ہے کہ پاکستان میں کبھی جمہوریت ہوگی ہی نہیں۔ ہمارے منافق لیڈر بس لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں عملاََ زیرو ہیں۔
آج بلوچ قوم کو دیکھیں کہ ان کے لیٖڈروں نے اپنے قوم کے اندر دشمن کے خلاف وہ نفرت پیدا کی ہے جو صرف بلوچستان کی آزادی کی بات کرتے ہیں۔ بلوچ قوم میں بھی یار محمد رِند، زُلفقار مگسی، جام کمال، صادق سنجرانی، اسلم رئیسانی، زُبیدہ جلال، قدوس بزنجو اور بُہت سارے علاقائی سردار ہیں جو اپنے اپنے علاقے کے بلوچوں کو گمراھی میں لگے ہوئے ہیں لیکن پھر بھی وہاں خیر بخش مری، نواب بُگٹی، اللہ نظر، اسلم بلوچ، گُلزار امام، میر بنگُلزئی، بشیر زیب اور کافی نوجوان لیڈر ہیں جن لوگوں نے بلوچ قوم کو آزاد بلوچستان کی راہ دی ہے۔
بلوچستان کے لوگ اپنے شھادت اور قربانیوں کو آزادی کی کِرن سمجھتے ہیں۔ بلوچستان میں بھی وہاں پاکستان پشتون فوجیوں کو بلوچ آزادی پسند سرمچاروں کے خلاف استمعال کرتا ہے۔ اس پر ہمیں بے حد دُکھ ہے۔
دوسری طرف ہمارے محمود اچکزی، محسن داوڑ، ایمل ولی اور مذہبی پشتون لیڈر مُنافق اور بُزدل ہیں جو آزاد پشتونستان کی بات نہیں کرتے بس قوم کو مزید تباھی کی طرف لے جارہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں