بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کا لاپتہ افراد کے لواحقین ،طلباء اور سندھی کارکنان کے ہمراہ کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ قائم کیا گیا۔
بلوچستان میں سیکورٹی فورسز کی جانب سے اجتماعی سزا جیسے نوعیت کے کاروائیاں جاری ہیں – مظاہرین
کراچی پریس کلب کے سامنے قائم احتجاجی کیمپ سے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے آرگنائزر آمنہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے علاقے آواران سے غیر انسانی و غیر قانونی طور پر علاقہ خالی کرائے جارہے ہیں، آواران کے علاقے پیر اندر سے جبری طور پر لوگوں کو نکالا جارہا ہے، حال ہی میں واشک کے علاقے ٹوبہ سے بزرگ درّے خان کے کمسن نواسوں کو پاکستانی فورسز نے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا ہے اور لوگوں کو علاقہ خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔
آمنہ بلوچ کے مطابق آواران کے رہائشیوں کو سیکورٹی کے نام پر اپنے گھر خالی کرنے کا کہا جارہا ہے جبکہ درے خان و اسکے کمسن بچے صنم جمیل و گزین کو بھی فورسز نے تاحال لاپتہ رکھا ہے جبکہ ہم ایسے سیکورٹی خدشات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جس کے وجہ سے بچوں اور بوڑھوں کو سیکورٹی ادارے اغواء کرکے جواز فراہم کررہے ہیں –
آمنہ بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں پاکستانی سیکورٹی اداروں کی جانب سے جو غیر انسانی و غیر آئینی عمل دہرائے جارہے ہیں وہ دنیا میں کہیں بھی نہیں پائے جاتے، بلوچ نوجوان نا تعلیمی اداروں میں محفوظ ہیں نا گھروں میں، آئے روز لوگوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے، دو روز قبل ہی فورسز نے حب چوکی سے زبیر زہری و عدنان مینگل نامی دو نوجوانوں کو لاپتہ کردیا ہے-
انہوں نے کہا کہ چند روز قبل پاکستان کے پشت پناہی میں قائم مقامی ڈیتھ اسکواڈ نے سہیل نامی نوجوان کو قتل کردیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ریاست بلوچستان میں اٹھنے والے آوازوں کو دبانے کی کوشش کررہی ہے –
انہوں نے بتایا کہ سہیل بلوچستان سے لاپتہ افراد کے لئے ایک آواز تھا تاہم ایک دفعہ فورسز نے انہیں جبری گمشدگی کا نشانہ بنانے کے بعد بازیاب کردیا تھا اب اپنے مقامی ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے سہیل بلوچ کو قتل کروا دیا ہے –
آمنہ بلوچ نے مزید کہا کہ سندھ میں بھی ریاست کے وفادار عام سندھیوں کے قتل میں ملوث ہے جسکا واضح مثال ناظم جوکھیو کا تازہ واقعہ ہے –
آمنہ بلوچ نے کراچی میں موجود تمام مکتبہ فکر کے لوگوں سے کیمپ میں شریک ہونے و اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی درخواست کی ہے –